صنوبر

درویش تو دستک سے ہی پہچان گیا ہے

مفرور پرندوں کو یہ اعلان گیا ہے
صیاد نشیمن کا پتہ جان گیا ہے

یعنی جسے دیمک لگی جاتی تھی وہ میں تھا
اب آ کے مرا میری طرف دھیان گیا ہے

شیشے میں بھلے اس نے مری نقل اتاری
خوش ہوں کہ مجھے کوئی تو پہچان گیا ہے

اب بات تری “کُن” پہ ہے کچھ کر مرے مولا
اک شخص ترے در سے پریشان گیا ہے

یہ نام و نسب جا کے زمانے کو بتاؤ
درویش تو دستک سے ہی پہچان گیا ہے

احمد عبداللہ

اپنا تبصرہ لکھیں