شریک سفر

مارا اس شرط پہ اب مجھ کو دوبارہ جائے

مارا اس شرط پہ اب مجھ کو دوبارہ جائے
نوک نیزہ سے مرا سر نہ اتارا جائے

شام سے پہلے کسی ہجر میں مر جائے گا
سورج اک بار مرے دل سے گزارا جائے

اس کی یہ ضد کہ مرا قتل پس پردہ ہو
مری خواہش مجھے بازار میں مارا جائے

اس کے آنے کی بھی امید عبث لگتی ہے
اس کو جانا ہے تو پھر سارے کا سارا جائے

میں زمیں زاد ہوں اے چاند نگر کے باسی
اس بلندی سے نہ پھر مجھ کو پکارا جائے

میں بہر شکل ترے دل میں اترنا چاہوں
ٹھہرے دریا تو سمندر میں کنارہ جائے
نصیر بلوچ

اپنا تبصرہ لکھیں