جدید معاشرے

جدید اور قبل از جدید معاشرے علم کی تعریف، فرق و تبدیلی

جدید اور قبل از جدید معاشرے : علم کی تعریف، فرق و تبدیلی۔
تحریر : منصور ندیم
موجود دنیا میں ہم ایک لفظ سائنٹیفک میتھڈ (Scientific Method) کا لفظ سنتے ہیں، یہ لفظ یا اصطلاح 1870سنہء میں عام ہوا، اس سے پہلے یہ لفظ بہت محدود پیمانے میں خاص علمی طور پر استعمال ہوتا تھا، ورنہ سترھویں صدی تک لفظ سائنس علم کے معنوں میں صرف Theory اور Philosphy کے لئے مخصوص تھا، ان دو علوم کے سوا تمام Arts اور Techniques کہلاتے تھے، کچھ Liberal Arts تھے، جن میں خطابت (Rhetoric), ریاضی (Mathematic), لسانیات (Linguistics) اور منطق (Logic) شامل تھے۔ پیشہ وارانہ فنون (Professional Arts) میں طب (Medicine) اور قانون (Law) کو شامل کیا جاتا ہے، باقی ماندہ فنون (Mechanical Arts) کہلاتے تھے، جن کے کام کرنے والوں یا کاری گروں یا معلموں کو دنیا بھر میں کسی طور پر بھی قابل قدر نہیں سمجھا جاتا تھا، ان کے معاوضے بھی نہایت قلیل ہوتے تھے۔
اس تقسیم و تحدید و ترتیب سے قبل از جدید معاشروں میں حفظ مراتب کے پاس و لحاظ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کن علوم کو برتری اور فوقیت حاصل تھی اور کون سے علوم تلچھٹ تصور کیے جاتے تھے ۔ مگر عصر جدید میں یہی علوم و فنون یعنی Mechanical Arts, Craft and Technique نہ صرف علوم عالیہ سمجھے جاتے ہیں، بلکہ علم کی تعریف ان ہی علوم سے متعین ہونے لگی ہے۔ آج کے عہد میں طبیعی دنیا میں کمال و مہارت رکھنے والا آدمی ہی بڑا اور اہم سمجھا جاتا ہے ۔ حفظ مراتب کی یہ تبدیلی ایک معمولی تبدیلی نہیں ہے ، بلکہ یہ ماضی کی مابعد الطبیعاتی معاشروں یا تصورات کی بنیادیں ہلاتی محسوس ہوتی ہے، یہ یقینا پورے تصور حقیقت اور مابعد الطبیعات کی تبدیلی ہے .
یہی وہ تبدیلی ہے جس نے مذہبی مابعدالطبیعاتی تصور کو فقط ایک Dogma کے تصور تک لا کھڑا کردیا۔ اسی تبدیلی نے پہلے سے موجود مذہبی تصورات خدا و آخرت، تصور کائنات، خیر و شر کے معیارات اور اخلاق و سچائی کے مذہبی تصورات کی یا تو سائنسی توجیہات کی بنیاد پر، یا ان کی ہئیت کی تبدیلی سے نئی اصطلاحات یا جدت کے نئے تصورات میں پیش کردیا ہے۔
یعنی جدید معاشروں نے زندگی کے ہر شعبے سے مابعد الطبیعاتی تصور کو عملا بے دخل کردیا ہے ، بالفاظ دیگر مذہب کا افراد کے معاشرتی تعلقات کی تشکیل و ترتیب میں کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیئے اور نہ ہی معاشرتی صف بندی میں افراد کے مقام و درجات کے تعین میں مذہبی اقدار کا عمل دخل ہو بلکہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق ، قانون، علم و فن غرض اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں دخل اندازی کا موقع نہیں دیا جانا چاہیئے ۔
اس کے مقابل دنیائے مذاہب کی طرف سے پیش کی جانے والی ہر حقیقت، خواہ وہ تمدنی و اخلاقی نوعیت کی ہو یا مابعد الطبیعی ، اسے شک و ارتیاب سے تعبیر یا شک سے ماوراء نہیں سمجھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ آج بھی دنیا میں 90 فیصد آبادی کم و بیش کسی نہ کسی صورت الہامی مذاہب(بشمول اسلام) کے ماننے والے ہیں ، مگر تمام ہی دنیا کے تمام ہی ممالک میں کسی بھی مذہب کی مابعد الطبیعاتی فلسفے پر کوئی ریاست موجود نہیں ہے۔ یہ مذہبی مابعدالطبیعائی فلسفہ صرف افراد کی انفرادی زندگی یا دعوے اور فلسفے کی حد تک محدود ہوتا جارہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں