الشامیہ

الشامیہ” جدید سہولتوں سے دور سعودی عرب کا گاؤں

“الشامیہ” جدید سہولتوں سے دور سعودی عرب کا گاؤں

دنیا میں صرف افریقی ممالک ہی نہیں بلکہ کئی ترقی یافتہ اور جدید سہولتیں میسر رکھنے والی ریاستوں میں بھی کئی مخصوص قبائل یا علاقے جدید دور کی سہولیات سے دور ہیں، ان کا سہولیات سے دور ہونا ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ان خطوں میں کی رہنا چاہتے ہیں، سعودی عرب ریگستانوں، نخلستانوں جنگلات اور کوہستانی سلسلوں پر مشتمل ملک ہے، سعودی عرب کے جنوب مغرب میں واقع ضلع جازان کثرت سے جنگلات میدانی یا کوہستانی علاقوں پر مشتمل ہے، یہیں جازان کے کوہستانی سلسلوں میں ایک ایسا گاؤں بھی موجود ہے، جہاں کے باشندے دنیا بھر سے کٹے ہوئے ہیں اور جدید ترین ترقی یافتہ وسائل سے مالا مال ماحول کے باوجود قدیم ترین پسماندہ انداز کی زندگی گزار رہے ہیں۔

جازان کے الریث کمشنری کے علاقے میں القھر پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے، ضلع جازان کی کمشنریاں اور تحصیلوں میں سرد موسم میں موسلا دھار بارشوں کے باعث الریث اور انواع کے پہاڑ سبزہ زاروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ جبال القھر پہاڑی سلسلوں سے اکثر ان موسموں میں آبشار بھی پھوٹ پڑتے ہیں ۔ یہیں الریث کے القھر کوہستانی سلسلے میں ایک گاؤں “الشامیہ” ہے، اس گاؤں تک کا سفر بھی آسان نہیں ہے، الشامیہ تک جانا جان جوکھم کا کام ہے۔ یہ پورا راستہ دھار دار چٹانوں سے بھرا ہوا ہے جہاں سے گزر کر آپ الشامیہ گاؤں تک پہنچ سکتے ہیں، یہ سارا سفر اس گاؤں تک پہنچنے کے لئے پیدل ہی طے کرنا ہوگا، ویسے مقامی لوگوں کے پاس اس سفر کے لئے واحد نقل و حمل کا زریعہ گدھے ہیں، اس گاؤں تک پہنچنے کے لئے بہتری سفر کا وقت دن کی روشنی ہی ہے۔

الشامیہ گاؤں سعودی عرب کی تمام جدتوب سے محروم ہے، یہاں کے باس یہاں سے نقل مکانی کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ، ان کی مجموعی آمدنی ان کو ریاستی وظیفے پر انحصار کرتی ہے، چونکہ یہ عام شہری زندگی سے بہت دور آبادی ہے، الریث کے یہ گاؤں بجلی سے محروم ہے، یہاں کے مکانات انسانی رہائش سے کہیں زیادہ بھیڑوں کے باڑے سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔ یہ مٹی کے بنے مکانات غار نما لگتے ہیں۔ یہاں ٹیلیفون کا تصور بھی موجود نہیں، بلکہ بنیادی زندگی کے وسائل کا بھی دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے، یہاں کے مقامی افراد نقل و حمل کے لئے گدھے استعمال ہوتے ہیں اور یہاں کہ مقامی زبان عربی کی کوئی ثقیل شکل ہے جو تھوڑا مشکل ہی سے سمجھ میں آتی ہے، یہاں کے افراد کی شرح تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، بس اس میں ایک پرائمری اسکول ہے، مڈل یا ثانوی درجات کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند مقامی افراد کو یہاں سے نکلنا پڑتا ہے۔

الشامیہ گاؤں کے افراد ذیابیطس، دمے اور سن رسیدگی اور ذہنی امراض جیسے امراض میں مبتلا ہیں۔ یہاں کے آباد خاندان خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب مقامی افراد بنیادی سہولتوں سے عاری پہاڑوں اور چٹانوں کے درمیان رہتے ہیں۔ یہاں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں، چشموں اور کنوؤں کا آلودہ پانی استعمال کرتے ہیں، جس سے مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہاں سے قریب ترین ہسپتال بھی 60 کلومیٹر دوری پر ہے، اگر انہیں ایمرجنسی میں ہسپتال جانا پڑے تو نقل و حمل کے جدید ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے یہ 60 کلو میٹر کا سفر بھی آسان کام نہیں ہے۔

الریث کے آس پاس کے گاؤں کے مقامی شہریوں کی زندگی کے مصائب افسانوی لگتے ہیں۔ ان کا مکمل انحصار حکومت کی سماجی کفالت سے ملنے والی رقم ہے۔ جو 1100 ریال سے لے کر 1500 ریال فی شہری ہے جو آج کل کی موجودہ مہنگائی کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی تقریبا بے روزگار ہیں، ماسوائے کچھ افراد جو ملک کے کسی دوسرے حصوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ اپنی میتوں کو بھی اپنے گھروں کے برابر میں ہی دفنا دیتے ہیں۔ ان کی آرزو ہے کہ مقامی حکام انہیں یہیں پر بہتیرن رہائش فراہم کریں اور گزر بسر کا کوئی انتظام کرکے دیں۔ سعودی عرب کے شہری دفاع کی جانب سے جازان ضلع میں مقیم شہریوں اور غیرملکیوں کو یہ ہدایات رہتی ہے کہ کہ سرد موسم میں خاص کر پہاڑی علاقوں میں رہنےوالے خصوصی احتیاط برتیں.

الریث میں بارش کے ساتھ ژالہ باری کی وجہ سے ہونے والے خوبصورت مناظر یہاں کی دلکش تصویر پیش کرتے ہیں. یہاں ژالہ باری کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے پہاڑوں نے سفید چادر اوڑھ لی ہے. یہاں ایک معروف پہاڑی سلسلے الاسود کے کئی مقامات میں قدرت کے حسین نظارے بکھرے دکھائے دیتے ہیں. پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے الریث کمشنری ویسے ہی غیر معمولی قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور اس پر ہونے والی ژالہ باری کے بعد یہاں مناظر اور بھی زیادہ خوشنما ہوجارے ہیں۔ الاسود پہاڑی سلسلہ معروف وادی لجب میں ہے جو 1800 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے. یہ علاقہ ہمہ وقت بادلوں میں گھرا رہتا ہے. اکثر وبیشتر اوقات یہاں بارش رہتی ہے۔

نوٹ : کسی خطے کی پسماندگی اور وہاں گدھے کی پسندیدگی اتفاقی امر بھی ہوسکتی ہے، اسے ہرگز سیاسی نہ گمان کیا جاوے۔

مورخہ ۸ جنوری سنہء ۲۰۲۲، کی تحریر ۔۔۔

تحریر : منصور ندیم

اپنا تبصرہ لکھیں