قبل از1947ء فلسطين کانقشہ
ناقابل تردیدحقیقت یہی ھےکہ اسرائیلی ریاست دنیاکےنقشے پرکبھی موجودتھی ہی نہیں۔
درحقیقت صدیوں پہلےفلسطین کاعلاقہ جب سلطنت عثمانیہ کےماتحت تھاتو اس وقت ہی صیہونی (Jewish)تحریک زورپکڑنے لگی۔
جب ان صیہونیوں کویورپ کےہرملک نےٹھوکرمارکر کر نکال دیا توکبھی انہیں ایران اورکبھی ترکیہ نےپناہ دی۔
آخرکار یہ ایک مہاجر کےطور پربھوکے، ننگے، بدحال فلسطين میں داخل ھوئے۔ فلسطینیوں نےان بےیارومدد گار یہودیوں کو پناہ دی۔
پہلی جنگ عظیم کےبعد برطانیہ کی شہہ پر بڑی تعداد میں یہودی فلسطین میں منتقل ھوئےاور یہیں سےان کے ناجائز قبضے کا آغاز ھوا۔
لیکن 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جب اپنے آپ کو “عظیم برطانیہ” کہلوانے کا برطانوی غرور خاک میں ملا تو اپنی شکست کی خفت مٹانے، ملکی دیوالیہ پن سے بچنے اور ھندوستان میں اپنا اقتدار ہاتھ سے جاتے دیکھ کر یہودیوں کی مکمل پشت پناہی کی اور 14 مئی 1948 کو اسرائیل نامی جائے پناہ مہیا کرنے میں کامیاب ھو گیا۔
1967میں فلسطین_اسرائیل جنگ میں
1947ء میں اقوام متحدہ نےبڑی چالاکی سے فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست میں منقسم کردیا۔
یوں 14مئی 1948 کو اسرائیل زبردستی فلسطین سےکاٹ کر دنیا کےنقشے پربنائی گئی۔
اسرائیل مغربی اردن یعنی غزہ کی پٹی پر ناجائز قابض ھے اور یروشلم کو اقوام متحدہ کی تقسیم کے مخالف اپنا دارالخلافہ مانتا ھے جبکہ فلسطینی اسے اپنا دارالحکومت۔
کل کا یہ ننگا، بدحال، بدنیت اور دہشت گرد اسرائیل آج دعوی کرتا ھے کہ فلسطین اس کا ھے؟؟
Load/Hide Comments