ساجد رحیم

ساجد رحیم کے خوبصورت اشعار

مجھے کچھ برا نہیں تھا ترے بازوؤں میں رہنا
مرے کام تھے ضروری مرے کام جا رہے تھے

اداس،کھوئے ہوئے،زرد ،چپ،خفا،دھندلے
میں اپنے جیسے مہینوں سے عشق کرتا تھا

میں نے تھاما ہےاسے اپنےسہارے کے لئے
لوگ سمجھے ہیں کہ دیوار نشے میں دھت ہے
پارسائی! تری رخصت کی گھڑی آ پہنچی
چاندنی شب ہے،مرا یار نشے میں دھت ہے
دیکھنا یہ ہےکہ پل پار کرےگا کیسے
ایک جنت کا طلب گارنشےمیں دھت ہے
عشق زادی کو میں بیچوں گا ملن کے سپنے
باغ ہے سبز،خریدار نشے میں دهت ہے
اس کو بچپن سے فقط درد ملا ہے سب سے
وہ جو دن رات لگا تار نشے میں دهت ہے
پوچھتے ہیں یہ لڑھکتے ہوئے پتھر ساجد
زلزلہ ہے کہ یہ کہسار نشے میں دھت ہے

میں ہر جاتے ہوئے سے کہہ رہا ہوں
ذرا ٹھہرو! مرے دن آ رہے ہیں ۔۔

بات کرتے رہے بغاوت کی
سانس لیتے رہے اجازت سے

پجارن کو بنا بیٹھا ہے دیوی
اور اب اک دیوتا الٹا پڑا ہے

روشنی سے ڈرا رہے ہیں مجھے
آپ یہ کیا سکھا رہے ہیں مجھے

کیا قیامت ہے اب تری باتیں
غیر آ کر بتا رہے ہیں مجھے

وہ جو انگلی پکڑ کے چلتے تھے
انگلیوں پر نچا رہے ہیں مجھے

اس کی آنکھوں پہ شعر کیا لکھا
لوگ آنکھیں دکھا رہے ہیں مجھے

اظہار التفات کے ہیں بے شمار ڈھنگ
جیسے کسی نے وقت پہ سونے کا کہہ دیا

نچھاور اس طرح تجھ پر محبت کی ہے جیسے
اڑا دے کوئی اک دن میں مہینے کی کمائی

ہو سکتا ہے اس نے مڑ کر دیکھا بھی ہو
مجھ کو ساری باتیں یاد کہاں رہتی ہیں

تو نے رہنا تو یہیں ہے مرے دل کے اندر
میرا مطلب ہے جدا ہونے سے کیا ہونا ہے!

کئی دلوں کا گزارا تیری ہنسی پر ہے،
کبھی کبھار سہی کھل کے مسکرایا کر۔۔

کام آ کر بھی تو ہرشخص کے تنہا ہو نا!
میں نہ کہتا تھا کہ اچھا نہیں اچھا ہونا

مجھ سے ہر دکھ نے یہ کہتے ہوئے لی ہے رخصت
تیرے جیسے کو……………محبت ہی بہت ہوتی ہے

گھر چھوڑنا ہے چھوڑ ،مگر اتنا یاد رکھ
جو چیز جس جگہ تھی وہیں چاہیے مجھے

ایک چہرے کی زیارت ہی بہت ہوتی ہے
آنکھ کو اتنی سہولت ہی بہت ہوتی ہے

ملبے سمیٹنے میں گزاری تمام عمر
معمول حادثات میں کچھ بھی نہیں بچا

قاضیء وقت کے لہجے میں رعونت ہے بہت
اس عدالت سے تو انصاف نہیں ملنے کا

خوش نوائی مثال تھی اس کی
بات کرتا تھا زخم بھرتا تھا

زندگی کوئی طریقہ کہ تجھے پھر سے جیوں
اب کہیں جا کے مجھے تیری سمجھ آئی ہے

میں سمجھتا تھا کہ دو چار تو ایسے ہوں گے
وہ جنھیں ایک محبت ہی بہت ہوتی ہے

اداس،کھوئے ہوئے،زرد ،چپ،خفا،دھندلے
میں اپنے جیسے مہینوں سے عشق کرتا تھا

میں ایک شہر کے لوگوں سے مل کے حیراں ہوں
فقیر کیسے کمینوں سے عشق کرتا تھا

سنہری دھوپ،ترا لمس،شاعری،چائے
حسیں ہوئی ہے اسی امتزاج سے ہر شام

ہائے کس کرب سے کہتی تھیں وہ خالی آنکھیں
تم تو سمجھو گے مجھے ،تم تو مسیحا ہو ناں !

سب مجھے خوش ہی لگے پہلی نظر میں لیکن
میں نے جب غور سے بچوں کو دوبارہ دیکھا

کیے ہیں راستے ہموار،جانے والوں کے
پڑا نہ پاؤں میں اس بار،جانے والوں کے

قلم آزاد ہوں گے
تو ہم آزاد ہوں گے

نجانے کون سے اچھے دنوں کی آس میں تھے
جو گھر پلٹ نہ سکے کام کاج سے ہر شام

تمھارے بعد مجھے تتلیوں سے خوف آیا
اگرچہ شوق یہ پالا گیا تھا بچپن میں

کم کو زیادہ دیکھنا عادت اسی کی تھی
آدھا ادھورا چاند بھی پورا لگا اسے

اک تو عادت تھی رتجگوں کی مجھے
پھر محبت بھی ہو گئی مجھ کو

جب کہ اس شہر کے سب لوگ ہیں اندھے،بہرے
حرف ہونے سے ،صدا ہونے سے ،کیا ہونا ہے

انھیں بتاؤ سمندر سے چاند کا رشتہ
جنھیں ہماری محبت عجیب لگتی ہے

یہاں بھی ایک دن شمعیں جلیں گی
یہ گھر بھی ایک شب اچھا لگے گا

محبت کی زباں اچھی لگے گی
پڑھو اردو ادب،اچھا لگے گا

یہ شجرے سے بغاوت ہے شجر کی
اسے پت جھڑ میں جھڑنا چاہیے تھا

کوئی نہیں ہے جو سنتا بھی ہو،سمجھتا بھی
ہم اپنے ساتھ گزاریں گے آج سے ہر شام

جن پہ چلتا نہیں کبھی کوئی
ایسے رستے کہیں نہیں جاتے

چل جدائی تری ضرورت تھی
چھوڑ تفصیل میں نہیں جاتے

ہمارے ہاتھ میں جا کر نہ جا سکے گا کہیں
ہماری شرط لگی ہے تمھارے ہاتھ کے ساتھ

اگر دیوار و در سارے سلامت ہیں
تو مت سمجھو کہ سارے گھر سلامت ہیں

بھرے ہیں زخم سب تن کے مگر گھاؤ
لگے جو روح پر ،سارے سلامت ہیں

کون مانے گا کہ مُجھ ایسے انا پرور نے
ایک ہی شخص کو دو بار بھی چاہا ہوگا

آنکھ کا دل سے رابطہ نہ رہا
ترجمانی گئی محبت کی ۔۔۔

تمھارے ساتھ جو اچھا لگا ہے
تمھارے بعد کب اچھا لگے گا

ارے اتنی محبت ! خیر تو ہے
ارے اتنا لگاؤ ! خوش رہو تم

بچھڑ کر مجھ سے کتنے خوش رہے ہو
مجھے تو مت بتاؤ ! خوش رہو تم

یہ کس بے جا تکلف میں پڑے ہو
چھڑاؤ ہاتھ، جاؤ ! خوش رہو تم

مرا ساجد یہ تم کو مشورہ ہے
نہ اس کا غم مناؤ ! خوش رہو تم

جھوٹ کہتے ہیں کہ آواز لگا سکتا ہے
ڈوبنے والا فقط ہاتھ ہلا سکتا ہے

اور پھر چھوڑ گیا وہ جو کہا کرتا تھا
کون بدبخت تجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے

اب تم ہمارے ہاتھ کو آئے ہو تھامنے
اب تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں بچا

سن پھر ہمارے ساتھ جو انہونیاں ہوئیں
تو نے تو بس جہان کو ہونے کا کہہ دیا

اپنا تبصرہ لکھیں