راحت اندوری

راحت اندوری کی مشہورشاعری

راحت اندوری” کے شاعرانہ ادب کے لحاظ سے مشہور ہیں اور ان کی شاعری میں احساس، عشق، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کا خوبصورت تجسس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں محبت، امید، اور زندگی کے ارد گرد جمالی تصویر کشی کا مواقع ہوتا ہے.
پیدائش:یکم جنوری1950اندور، انڈیاوفات:11اگست2020اندور، انڈیا
شریک حیات۔انجم رہبر(م۔ 1988-1993)،سیماراحت (م۔ 1977)بچے:سمیر اندوری، ستلج اندوری، شبلی اندوری، فیصل اندوری والدین:رفعت اللہ قریشی، مقبول النساء بیگم تعلیم: اردو ادب میں ایم اے، پی ایچ ڈی.

زم زم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
اے نبیﷺ، آپﷺ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ ﷺکے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا

میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے

راستے میں پھر وہی پیروں کا چکر آگیا
جنوری گزرا نہیں تھا اور دسمبر آگیا
اپنے دروازے پر میں نے پہلے خود آواز دی
اور پھر کچھ دیر میں خود ہی نکل کے آگیا

مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

سسکتی رت کو مہکتا گلاب کر دوں گا
میں اس بہار میں سب کا حساب کر دوں گا
میں انتظار میں ہوں تو کوئی سوال تو کر
یقین رکھ میں تجھے لا جواب کر دوں گا

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کر کے
ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے

صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہیے ۔
اے خدا دشمن بھی مجکو خاندانی چاہیے ۔
میری قیمت کون دے سکتا ھے اس بازار میں
تم زلیخا ہو تمہیں قیمت لگانی چاہیے

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں

خبر مِلی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

یہ چند لوگ جو بستی میں سب سے اچھے ہیں
ان ہی کا ہاتھ ہے مجھ کو برا بنانے میں

چور اُچکوں کی کرو قدر_
معلوم نہیں کون کب کونسی سرکار میں آ جائے گا_

اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا

کئی دنوں سے طبیعت مری اداس نہ تھی
یہی جواز بہت ہے اداس ہونے کا

میرے اپنے مجھے مٹی میں ملانے آئے
اب کہیں جا کے مرے ہوش ٹھکانے آئے

میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو.
آسماں لائے ہو؟ لے آؤ زمیں پر رکھ دو.
اس نے جس طاق پہ کچھ ٹوٹے دئیے رکھّے ہیں.
چاند تاروں کو بھی لے جا کے وہیں پر رکھ دو.

کس نے دستک دی یہ دل پر کون ہے
آپ تو اندر ہیں ______باہر کون ہے

پھونک ڈالوں گا کسی روز میں دل کی دنیا
یہ ترا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ سکوں
پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن
اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں

“دو گز صحیح میری لیکن ملکیت تو ہے”
“اے موت تونے مجھے زمیندار کر دیا”

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

دَرِ مسجد پہ کوئی شے پڑی ہے
دُعائے بے اَثر ہو گی ہماری

خود کو پتھر سا بنا رکھا ہے کچھ لوگوں نے
بول سکتے ہیں مگر بات ہی کب کرتے ہیں
ایک اک پل کو کتابوں کی طرح پڑھنے لگے
عمر بھر جو نہ کیا ہم نے وہ اب کرتے ہیں

تمہیں پتہ یہ چلے گھر کی راحتیں کیا ہیں
ہماری طرح اگر چار دن سفر میں رہو

میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں
مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں

عجیب لوگ ہیں میری تلاش میں مجھ کو
وہاں پہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں نہیں ہوں میں

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ھیں خسارہ کر کے

اپنے حاکم کی فقیری پہ ترس آتا ہے
جو غریبوں سے پسینے کی کمائی مانگے

آپ کی نظروں میں سورج کی ہے جتنی عظمت ،
ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں۔

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن
دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

بے حسی مردہ دلی رقص شرابیں نغمے
بس اسی راہ سے قوموں پہ زوال آتے ہیں

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو

گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر
میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے

ٹوٹ کر ہم ملے ہیں پہلی بار
یہ شروعات ہے جدائی کی

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راتوں کا نیندوں سے رشتہ ٹوٹ چکا
اپنے گھر کی پہرے داری کیا کرو
شب بھر آنے والے دن کے خواب بنو
دن بھر فکر شب بے داری کیا کرو

جب جی چاہے موت بچھا دو بستی میں
لیکن باتیں پیاری پیاری کیا کرو

اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب

راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
ر ا ستے آ و ا ز دیتے ہیں سفر جاری ر کھو!

ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے

بدن چرا کے وہ چلتا ہے مجھ سے شیشہ بدن
اسے یہ ڈر ہے کہ میں توڑ پھوڑ دوں گا اسے

اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈ ہی لوں گا تجھ کو
ٹھوکریں زہر نہیں ہیں کہ میں کھا بھی نہ سکوں

مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے

نہ جانے کون دُعاؤں میں یاد رکھتا ہے
میں ڈوبتا ہوں سمندر اُچھال دیتا ہے

موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے

سبب تخلیقِ دُنیا کا جہاں جب بھی کہیں لکھا،
مُحمّدﷺ اولیں لکھا! مُحمّدﷺ آخری لکھا۔

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کر کے

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم

آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
نئے کردار آتے جا رہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے

نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں

مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے

میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں
یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے

اپنا تبصرہ لکھیں