کیا بی جے پی لال قلعہ اور تاج محل کا نام بھی بدل دے گی

گلاب کا نام بدل دینے سے اس کی خوشبو نہیں بدل جاتی .
لیکن انڈیا میں نام بدلنے کی مہم جاری ہے .جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی شدت پسند ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کئی شہروں کا نام تبدیل کرنے کے بعد اب ملک کا نام ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے.ایک آئینی ترمیم کے ذریعے بھارت کا نام ریپبلک آف انڈیا ہے جسے ریپبلک آف بھارت رکھا جائے گا.
دارالحکومت دہلی میں واقع راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) کے مغل گارڈن کا نام بدل کر ’امرت اددیان‘ رکھ دیا گیا.بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے اس خبر کو امرت کال میں ’غلامی کی ذہنیت‘ سے باہر آنے کے لیے مودی حکومت کا ایک اور تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا.
بھارتی اپوزیشن وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کر رہی ہے کہ کیا وہ لال قلعہ اور تاج محل کا نام بھی بدل دیں گے؟
بی جے پی سے تعلق رکھنے سوویندو ادھیکاری کہتے ہیں کہ بنگال میں بی جے پی کی حکومت آئے گی تو ایک ہفتے میں انگریزوں اور مغلوں کا نام ہٹا دیا جائے گا۔
اس سے قبل مغل گارڈن کے آگے والی سڑک راج پتھ کا نام بدل کر کرتویہ پتھ رکھ دیا گیا تھا جبکہ اس سے قبل اس کے قریب ہی اورنگزیب روڈ کا نام بھی بدل دیا گیا تھا۔
ابھی حال ہی میں وزیراعظم مودی نے انڈمان اور نکوبار جزائر میں 21 جزیروں کو نئے نام دیے۔ جس میں راس آئیلینڈ کو نیتا جی سبھاش چندر بوس جزیرہ کہا گیا اور ہیولاک اور نیل جزائر کو سوراج اور شہید جزائر کا نام دیا گیا۔
ریاست اتر پردیش میں الہ آ باد اور فیض آباد کا نام بدلنے کے بعد اب ریاست میں آگرہ، لکھنؤ اور علی گڑھ کے نام بھی بدل کر ہندو ناموں پر رکھنے کی مانگ شروع ہو گئی ہے۔
ادھر گجرات کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ احمدآباد کا نام بدل کر کرناوتی کرنے جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر نام بدلنے کے عمل میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں آئی تو آئندہ پارلیمانی انتخابات سے پہلے احمدآباد کا نام تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس کے لیے مطلوبہ منظوری حاصل کرنے اور قانونی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ احمدآباد نام ہندوؤں کی غلامی کی علامت ہے جبکہ کرناوتی ہندوؤں کے افتخار، وقار، ثقافت اور خود مختاری کا غماز ہے۔
ریاست مہاراشٹر میں بھی کم از کم دو شہروں کے نام بدلنے کی مانگ سامنے آئی ہے۔اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے الہ آباد کا نام پریاگ راج اور فیض آباد کا نام ایودھیا کر دیا.
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اورنگ آباد کا نام سمبھا جی نگراور عثمان آباد کا نام دھارا شیو نگر کیا جا رہا ہے.جنوبی ریاست تلنگانہ میں بھی
بی جے پی کا کہنا ہے اگر ان کی حکومت اسمبلی انتخابات میں اقتدار میں آگئی تو وہ بقول ان کے حیدرآباد اور جڑواں شہر سکندر آباد کے اسلامی ناموں کو بدل دے گی۔
نام بدلنے کے پیچھے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ان کے موجودہ نام ہندوؤں کی غلامی کی علامت ہیں۔ نام بدلنے کے پیچھے ماضی کی نام نہاد عظمت اور تہذیبی وراثت کو بحال کرنا نہیں بلکہ دور حاضر کے مسلمانوں کو یہ بتانا ہے کہ جمہوری انڈیا کی تہذیب و تمدن کا مطلب ہندو تہذیب و تمدن ہے اور اس تہذیب میں مسلمانوں اور ماضی کے مسلم حکمرانوں کا کوئی کردار اور رول نہیں ہے۔ وہ مسلم حکمرانوں کی علامتوں اور نشانیوں کو مٹانا چاہتے ہیں۔
ملک میں نہ صرف شہروں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں بلکہ تاریخ کے نصابوں اور متن میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کی جنگوں کی تشریح ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ کے طور پر کی جارہی ہے۔
انڈیا کے مرکزی تعلیمی نظام سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) نے سنہ 23-2022 سیشن کے لیے چند اہم موضوعات کو ہٹا دیا ہے.
11ویں اور 12ویں کے نصاب سے ’غیر وابستہ تحریک، سرد جنگ کا زمانہ، افریقی اور ایشائی خطے میں اسلامی سلطنت کا عروج، مغل دربار کے کرانیکل، اور صنعتی انقلاب جیسے اہم موضوعات نکال دیے گئے ہیں۔
بی جے پی کی حکومت میں آنے کے بعد سے تعلیم کو بھی ’زعفرانی‘ رنگ میں رنگا جا رہا ہے .ہریانہ کے بورڈ نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں پریم چند کی کہانی ’عیدگاہ‘ نہیں پڑھانی ہے کیونکہ ان کی ریاست ہندو اکثریتی ریاست ہے۔بی جے پی یا آر ایس ایس کا یقین بہت زیادہ انتخابی سیاست میں نہیں ہے وہ معاشی، سماجی، تاریخی، لسانی ہر سطح پر تبدیلی چاہتے ہیں۔
اور اس کے لیے وہ نصاب سے ایسی چیزوں کو ہٹا دینا چاہتے ہیں تاکہ انھیں آئندہ اپنے بیانیہ کے پھیلانے میں کوئی دقت نہ ہو۔نہ صرف تعلیم کے میدان میں بلکہ ہر شعبے میں اس طرح کی تبدیل کر رہے ہیں جس میں ان کے ایجنڈے درست بیٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ چند برسوں میں ٹی پر بچوں کے لیے جو کارٹون دیکھائے جا رہے ہیں اس میں بھی ایسے کردار ہیں جو مذہبی اساطیر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں تشدد کو سراہا جاتا ہے۔
جمہوری نظام اکثریت کی بنیاد پر چلتا ہے اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسی اکثریت کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ شاید بھول رہے ہیں جمہوری نظام میں حقیقتیں نہیں بدلتیں، حکومتیں بدلا کرتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں