نوابوں کی پسندیدہ میٹھے چاولوں کی ڈش متنجن

نوابوں کی پسندیدہ میٹھے چاولوں کی ڈش متنجن

متجن ایرانی و عربی لفظ متاجن سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’برتن میں تلنا‘۔
کسی نواب کے گھر پر رات کے کھانے اور دوسرے لوگوں کو بھیجے گئے کھانوں میں ہمیشہ متنجن ہوتا تھا۔تاریخ دان سلمیٰ حسین بتاتی ہیں کہ نسخہ شاہجہانی میں متنجن پلاؤ کی ترکیب بھی موجود ہے۔عرب تاریخ دران شہاب الدین العمری نے اپنی کتاب میں سلطان محمد بن تغلق کے دور کے انڈیا کے بارے میں لکھا تھا متنجن ایک ایسا پکوان ہے جسے گلی محلے میں عام لوگ کھاتے ہیں۔ یہ صرف شاہی خاندانوں کے لیے نہیں ہے۔متنجن عربی اور فارسی کھانوں سے نکلا ہے جن میں چینی، چاول اور گوشت کو ملایا جاتا ہے۔ اس پکوان میں چاول میں باربیری، پستے، کشمش اور نارنجی کے چھلکے کے ساتھ چکن بریسٹ کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں جس قسم کا متنجن آج کل مقبول ہے اس میں گوشت نہیں ہوتا۔اس میں سیرپ میں بھیگے ہوئے سفید چاول، جن کو مختلف رنگ دیے جاتے ہیں، ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خشک میوہ جات اور گری دار میوے، چیری، چمچم، کاٹج چیز اور ٹوسٹڈ ناریل ہوتے ہیں۔ کچھ میں تو ابلے ہوئے انڈے بھی ڈالے جاتے ہیں۔
خوش قسمتی سے چند لوگ اب بھی یہ ڈش بناتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں