خواتین فیفا ورلڈ کپ: مغربی میڈیا کی تعصبانہ روش | اردوپبلشر

خواتین فیفا ورلڈ کپ: مغربی میڈیا کی تعصبانہ روش، مراکشی ٹیم کی فتح سے جلن

مراکش فٹ بال خواتین کی ٹیم نے ورلڈ کپ میں اس میگا ایونٹ میں نمایاں پوزیشن حاصلکر کے سب کو حیران اور ششدر کر دیا ہے۔ یہ مراکش اور خاص طور پر ملک کی خواتین کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔

مردوں کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے کے آٹھ ماہ بعد، مراکش کی خواتین کی فٹ بال ٹیم نے یہ پوزیشن حاصل کر کے کھیل کی روایتی درجہ بندی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اس وقت جاری ویمنز ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے والی پہلی عرب اور مسلم اکثریتی ملک، مراکش کی ٹیم نے فٹبال پنڈتوں کو حیران کر دیا، کولمبیا اور جنوبی کوریا کو شکست دے کر فائنل 16 ٹیموں میں اپنی جگہ پکی کر لی ہے۔

ورلڈ کپ سے پہلے بی بی سی کے ایک صحافی نے مراکش کی ٹیم کی کپتان غزلین چیبک سے فٹ بال سے مکمل طور پر غیر متعلق پوچھ کر نہ صرف اپنی سبکی کرائی بلکہ کپٹن غزلین کو بھی پریشان کر دیا۔

مراکش کے جرمنی کے ساتھ مقابلے سے قبل میلبورن میں پری میچ پریس کانفرنس کے دوران بی بی سی کے رپورٹر نے سوال کیا کہ مراکش میں ہم جنس پرستوں کا رشتہ رکھنا غیر قانونی ہے۔ کیا آپ کے اسکواڈ میں کوئی ہم جنس پرست کھلاڑی ہے اور مراکش میں ان کے لیے زندگی کیسی ہے؟

مراکشی کپتان غزلین اس سوال سے پریشان ہوگئی تو فیفا کے ایک اہلکار نے پریس کانفرنس کو معتدل کرتے ہوئے فوری طور پر مداخلت کی اور کہا کہ :معذرت، یہ ایک بہت ہی سیاسی سوال ہے لہذا ہم صرف فٹ بال سے متعلق سوالات پر قائم رہیں گے۔

مراکش میں، ہم جنس پرستی کے نتیجے میں تین سال قید ہو سکتی ہے اور صرف اسی وجہ سے، مراکش کے کپتان پر کسی بھی ہم جنس پرست کو نکالنے کے لیے دباؤ ڈالنا سراسر غیر ذمہ دارانہ تھا۔ نہ ہی یہ صحیح پلیٹ فارم تھا کہ کھلاڑیوں کو ہم جنس پرستوں کو ظاہر کیا جائے اگر ٹیم میں کوئی ہم جنس پرست کھلاڑی ہیں۔ اگر اس نے خود سے کسی کوئی اظہار نہیں کیا کہ وہ ہم جنس پرست ہے یا نہیں۔

صحافی کے اس سوال سے تعصب کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔ مراکش کی مردوں کی ٹیم نسل پرستی کا نشانہ بھی بنائی گئی ہے، مگر یہ سوال نہیں پوچھا گیا ہے۔ مگر اس سلسلے میں بی بی سی کا صحافی جنسی دقیانوسی نظریات کا قیدی بن کر رہ گیا کہ صرف ہم جنس پرست خواتین ہی فٹ بال کھیلتی ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے خلاف خود بی بی سی نے مہم چلائی ہے؟

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی میزبانی میں خواتین کے ورلڈ کپ میں مراکش کی طرف سے پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے کہ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی پہلی حجاب پہننے والی کھلاڑی بھی شامل ہے۔

اس موقع پر ٹورنامنٹ کی کامیابیوں سے متعلق سوالات کرنا مکمل طور پر موزوں تھا ۔ لیکن ایونٹ میں ایک عرب قوم پر توجہ مرکوز کرنا اور اس ملک پر منفی انداز سے روشنی ڈالنے کی کوشش کرنا، اس طرح کی اخلاقی برتری کے متعلق احساس کمتری کا مغربی میڈیا نے پہلے بھی مظاہرہ کیا تھا ، جب قطر نے 2022 کے مردوں کے ورلڈ کپ کی میزبانی کی تھی۔

کوئی بھی صحافی امریکی خواتین کی قومی ٹیم کی شریک کپتان لنڈسے ہوران یا ایلکس مورگن سے یہ نہیں پوچھتا کہ امریکہ میں جاری نسل پرست پولیس کی بربریت کو دیکھتے ہوئے ان کی ٹیم میں سیاہ فام امریکی کھلاڑیوں کی زندگی کیسی ہے۔

ان سے امریکہ میں اسقاط حمل کے حقوق کو ختم کرنے یا عراق پر غیر قانونی حملے اور دو دہائیوں بعد اس کے پیچیدہ نتائج کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا گیا ہے۔

یہ اہم سیاسی باتیں اور مسائل ہیں لیکن کھیلوں کے کسی ایونٹ میں کس سے اس بارے پوچھنا ہے بد ترین تعصب ہے اور بدترین ایجنڈا ہے۔ خاص طور پر جب کھلاڑیوں نے خود ان مسائل پر مہم نہیں چلائی ہے یا وہ ذاتی طور پر ان مسائل میں ملوث نہ رہا ہو۔

یہ عرب اقوام پر اخلاقی برتری دکھانے کا ایک نمونہ بن گیا ہے۔ جب کسی دوسری قوم کو LGBTQ حقوق یا کسی دوسرے سیاسی مسئلے کے بارے میں سوالات نہیں مل رہے ہیں، تو مراکش کو الگ کرنا دنیا بھر میں مغربی نقطہ نظر کو نافذ کرنے کے اس رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔

گزشتہ سال قطر ورلڈ کپ پر بھی اسی طرح تنقید کی گئی تھی، اس کا زیادہ تر حصہ مشرقیت اور نسل پرستی سے جڑا تھا۔ اس طرح کے خدشات دیگر عرب ممالک کے ساتھ اٹھائے جاتے ہیں جو اپنے کھیلوں کے شعبوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

تاہم، کسی نہ کسی طرح، 2026 کے مردوں کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو پر بہت کم ردعمل سامنے آیا ہے۔ ساختی نسل پرستی، جاری جبری مشقت، امیگریشن کے حقوق، تباہ کن بندوق کے تشدد اور بہت کچھ پر امریکی کیمپ میں کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ہے۔

اخلاقی برتری کا یہ احساس صرف فٹ بال تک ہی محدود نہیں ہے۔ آسکر کی نامزدگیوں کے لیے منتخب فلمیں جن کی کہانی مشرق وسطیٰ پر مبنی ہے، حالیہ برسوں میں ایسی تمام فلمیں ہیں جو خطے کو یا تو جنگ، دہشت گردی یا جبر کی عینک سے دکھاتی ہیں۔جیسا کہ دی ہرٹ لاکر اور زیرو ڈارک تھرٹی جیسی فلمیں، دونوں نے اکیڈمی ایوارڈز جیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں