بغیر پائلٹ سسٹم فائٹرز میں پاکستان اور چین کی مہارت | اردوپبلشر

بغیر پائلٹ سسٹم فائٹرز میں پاکستان اور چین کی مہارت ، بھارت شدید پریشان

پاک چین ڈرون ٹیکنالوجی میں مہارت کے بعد بھارت بھی تیزی سے بنا پائلٹ سسٹم ٹیکنالوجی کو رہا ہے ،چین اور پاکستان کی اس فیلڈ میں ترقی کے بعد بھارت نے بغیر پائلٹ کے اپنی فوجی قوت بڑھانے کی طرف اہم سفر شروع کر دیا۔ جبکہ پاکستان چین کی مدد سے بغیر پائلٹ فوجی صلاحیت حاصل کر کے پہلے ہی اس راستے پر گامزن ہے۔ چین اس معاملے میں بہت آگے ہے۔

بھارتی میڈیا نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے اور اسے چین اور پاکستان کی بنا پائلٹ کے جہاز اور ڈرون ٹیکنالوجی سے کافی زیادہ خدشات لاحق ہیں۔ اس لیے بھارت نے اب اس کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے کہ سرحدی نگرانی اور سرحد پار دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے UAVs یعنی بنا پائلٹ جہاز کی صنعت کو سنجیدگی سے آگے لے کر چلایا جائے اور اس میں حائل تمام رکاوٹوں سے نمٹا جائے ۔ اس سے ملک کو درپیش پیچیدہ سکیورٹی چیلنجوں سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

دنیا کی فوجی قوتیں بغیر پائلٹ اپنی صلاحیت کو بڑھا رہی ہیں – کچھ تیزی سےکچھ آہستہ آہستہ، بھارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ دو دہائیوں تک جاری رہنے والے ایک غیر یقینی مرحلے کے بعد درآمدی نظام کی بلند قیمت نے ان کی تعداد کو کم کرنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ملک کی مسلح افواج کے لیے مستقبل واضح طور پر روشن نظر آنے لگاہے۔ حکومت کی ‘میک ان انڈیا’ انیشی ایٹو کچھ حلقوں کے شکوک و شبہات کے باوجود نجی فرموں کو ہندوستانی فوج، ہندوستانی بحریہ اور ہندوستانی فضائیہ کے استعمال کے لیے بغیر پائلٹ کے نگرانی کے آلات اور ہتھیاروں کے نظام کی تیاری میں دلچسپی لینے کی ترغیب دے رہی ہے۔ کیونکہ نہ صرف بھارت کے ممکنہ مخالف اپنی بغیر پائلٹ کی صلاحیت کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں بلکہ متعدد غیر ریاستی عناصر کا بھی اس ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔

کئی دہائیوں سے امریکہ نے بغیر پائلٹ سسٹم کی ترقی اور استعمال میں برتری حاصل کی ہے، خاص طور پر ہوائی جہاز کی قسم میں کہ وہ ابھی بھی اس میدان میں اسرائیل سے پیچھے ہے۔ بہت کم دوسرے ممالک کو ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل تھی اور اس سے بھی کم لوگوں نے اس سسٹم کو حملے کرنے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن فوجی دستے بغیر پائلٹ کے اپنی جنگی صلاحیت بڑھا رہے ہیں، جو اس طرح کے نظام کے واضح فوائد کے قائل ہیں۔

بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیاں (UAV) یا “ڈرون” اصل میں خالصتاً جاسوسی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اب وہ معمول کے مطابق مواصلات، الیکٹرانک وارفیئر (EW) اور دیگر مقاصد میں استعمال ہو رہے ہیں۔
اگرچہ نام نہاد “مسلح ڈرون حملے” خاص طور پر مشرق وسطیٰ، افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد رہنماؤں کے خلاف عالمی توجہ مبذول کراتے ہیں، لیکن UCAVs اور دیگر بغیر پائلٹ سسٹمز کو تیار کرنے اور ان کی تعیناتی میں امریکہ کسی بھی طرح تنہا نہیں ہے۔ روس کم پروفائل رکھتے ہوئے اچھی ترقی کر رہا ہے۔

چین جو کہ کافی دیر سے اپنی عسکری صلاحیتوں کی تشہیر کے لیے بے چین نظر آتا ہے، بغیر پائلٹ سسٹم کے میدان میں بڑھتی ہوئی صلاحیت کا مالک ہے۔ چین کی بعض فیلڈ میں ترقی سے امریکی غلبہ کو خطرہ ہونے لگا ہے۔ نومبر 2016 میں، چائنا ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن (CASC) نے اپنے Cai Hong 5 (رینبو 5، یا CH-5) کے پروٹوٹائپ کو عوامی طور پر ظاہر کرنے کے لیے Zhuhai Airshow کا استعمال کیا۔ مبینہ طور پر یہ دنیا کا سب سے جدید اور طاقتور UCAV یعنی بنا پائلٹ جنگی ہوئی جہاز ہے۔ یہ فضا سے زمین پر مار کرنے والے 16میزائلوں سے لیس 32 گھنٹے تک دشمن کے علاقے میں گشت کر سکتا ہے۔

چین کو پاکستان، عراق، نائیجیریا، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے ساتھ اپنے ہتھیار تقسیم کرنے میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان کے CH-5 ڈرون اب اس پوزیشن پر ہیں کہ وہ ان کو برآمد کر سکے ، اس اہلیت تک پہنچنے میں اب پاکستان کو زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ درحقیقت پاکستان پہلے ہی ایک مقامی مسلح UAV بنانے میں ماہر ہے۔ ستمبر 2015 میں، ملک کی فوجی فورسز نے براق ڈرون سے ‘برق’ نامی لیزر گائیڈڈ ہوا سے زمین پر مار کرنے والا میزائل فائر کیا۔

یہ پہلی بار تھا کہ براق کو براہ راست فوجی آپریشن میں استعمال کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے چینی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور اس کا چین کے اپنے CH-3 UAV سے گہرا تعلق ہے۔ چین UAVs اور UCAVs کے عالمی برآمد کرنے والوں میں سے ایک ہے اور مسلح نظام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے امریکی دہائیوں کی کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کو زیادہ تشویش کی بات یہ رپورٹس ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ (ISIS) اور حزب اللہ جیسے عسکریت پسند گروپوں نے اتحادی اور عراقی فوجی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے اور یہاں تک کہ خام دھماکہ خیز آلات کی ترسیل کے لیے غیر ملکی ڈرونز کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ مسلح ڈرونز کچھ تجزیہ کار انہیں اڑتے ہوئے آئی ای ڈیز کہتے ہیں، زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے بہت چھوٹے ہیں، لیکن ان کی اہمیت ہے اور وہ ان قوتوں کے حوصلے کو بڑھا سکتے ہیں اور نشانہ بننے والے کمزور ہو سکتے ہیں۔

مستقبل میں نان اسٹیٹ ایکٹر خود مختار ڈرون جیسے جدید ترین نظاموں کا سہارا لے سکتے ہیں جن کو روکنا بہت مشکل ہوگا۔ اور یہ وقت کا اہم سوال ہے کہ دنیا کے اس حصے میں دہشت گرد اسی طرح کے ہتھکنڈے اپنانا شروع کر دیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق جب بات جدید ہتھیاروں کے نظام کی ترقی کی ہو تو بھارت کے پاس اس سلسلےمیں کافی آپشن ہیں – ایک مضبوط صنعتی بنیاد، وسیع انسانی وسائل اور اس کی بہت سی فرموں کا مسلسل تخلیقی کام کا عزم شاندار پیش رفت کی وجہ سے DRDO مستحکم ہونے میں کامیاب رہا ہے۔

اس کا تازہ ترین سنگ میل 16 نومبر 2016 کو رستم-2 پروٹوٹائپ کی پہلی پرواز تھی۔ رستم-2 جس کا بعد میں نام تاپس 201 رکھ دیا گیا ہے۔ ٹیک آف، لیول فلائٹ، موڑ لینے اور لینڈنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ DRDO ٹیسٹ پروازوں کے لیے دس ایسے UAVs تیار کرنے اور تیز رفتار ٹیسٹنگ شیڈول پر عمل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ کم سے کم وقت میں فلائٹ سرٹیفیکیشن حاصل کیا جا سکے۔ اب تک بغیر پائلٹ کے فوجی نظام انڈین ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کے خصوصی دائرہ کار میں رہے ہی

اپنا تبصرہ لکھیں