چین کی دنیا سے پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے

ہمالیہ کی اونچائی پر زوجیلہ ٹنل کی تعمیر، چین اوربھارت پر کیااثرات مرتب ہوں گے ؟

ہمسایہ ملک بھارت زمینی مواصلات کو توسیع دینے کی غرض سے اور سرحدی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے چین کی سرحد کے قریب زوجیلا ٹنل پروجیکٹ  جاری رکھے  ہوئے  ہے۔ یہ سرنگ ہمالیہ کے ناہموار علاقے کے درمیان واقع ہے ، اس سرنگ کا مقصد فوج اور علاقہ مکینوں کو ہر وقت آمدو رفت کی رسائی فراہم کرنا ہے، تاکہ محفوظ  نقل و حمل  کو یقینی بنایا جاسکے۔

سری نگر اور لیہہ کے درمیان واقع زوجیلا پاس طویل عرصے سے فوجی دستوں اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے ایک اہم راستہ رہا ہے، خاص طور پر سردیوں کے دوران، جب شدید برف باری سے دیگر گزرگاہیں اور رستے بند ہوجاتے ہیں اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے  ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ  یہ درہ برفانی تودے گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ کے لیے انتہائی خطرناک ہے، جس کی وجہ سے راستے مسدود رہتے ہیں اور رابطے میں اکثر رکاوٹ رہتی ہے۔

زوجیلا ٹنل کی تعمیر کے منصوبے کا افتتاح مئی 2018 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ اسے نیشنل ہائی ویز اینڈ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے شروع کیا گیا ہے۔ زوجیلا ٹنل 9.5 میٹر چوڑی اور 7.57 میٹر اونچی ہے جو کہ دو لین والی ہائی وے ہوگی۔ اس کی تعمیر اور کھدائی کے لیے ایک جدید ٹیکنالوجی نیو آسٹرین ٹنلنگ میتھڈ استعمال کی جا رہی ہے۔

ساڑھے چودہ کلومیٹر لمبی زوجیلا ٹنل، جو 11,500 فٹ سے زیادہ کی اونچائی پر واقع ہے، انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔زوجیلا ٹنل منصوبے پر تقریباً 68.09 بلین بھارتی روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سرنگ کی تعمیر ایک مشکل چیلنچ والا  کام ہے۔ یہ خطہ عمودی ڈھلوانوں، چٹانوں اور   پگھلنے والے گلیشیئرز پر مشتمل ہے، جو تعمیراتی عمل کو مشکل بنانے کا سبب ہیں۔ ان مشکلات کے باوجود ورکرزاپنے مشن کی تکمیل اور خطے کو لائف لائن فراہم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ پروجیکٹ کے ایک سینئر مینیجر برہان اندرابی  کے مطابق  کل 14.15 کلومیٹر میں سے 6 کلومیٹر سرنگ کی کھدائی مکمل ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پل کے دو  ذیلی ڈھانچے بھی مکمل ہو چکے ہیں، اور تیسرے پل پر کام جاری ہے۔ سرنگ پر کام 2021 میں شروع ہوا۔
اس کی تعمیر کے بعد بالتال سے مینا مرگ کا فاصلہ موجودہ 40 کلومیٹر سے کم ہو کر 13 کلومیٹر رہ جائے گا۔ سفر کے وقت میں ڈیڑھ گھنٹہ کمی متوقع ہے اور سفر آرام دہ ہونے کی امید بھی  ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس پروجیکٹ سے  بھارت کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں، لداخ اور جموں و کشمیر دونوں کی مربوط ترقی ہو گی۔

2020میں، بھارتی اور چینی فوجیں لداخ کی وادی گالوان میں دو بدو لڑائی اور  جھڑپیں  بھی لڑتی رہی  ہیں  ۔ 1975 کے بعد سے دو جوہری طاقتوں کے درمیان پہلی شدید جھڑپ میں 20 ہندوستانی اور کم از کم چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سےصورت حال افراتفری کا شکار ہے، دونوں فریقوں نے ڈی فیکٹو باؤنڈری کے قریب انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی جو کہ انہیں  لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے الگ کرتی  ہے۔

ایک بار مکمل ہونے کے بعد یہ  سرنگ بھارت کے لیے ایک رسد  اور سپلائی کا مسئلہ حل کر دے گی، کیونکہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر اور لداخ کے زوجیلا حصے کے درمیان قومی شاہراہ پورے موسم سرما میں برف سے ڈھکی رہتی ہے، جس سے سڑک کی آمدورفت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور سرحدی علاقے کو باقی ماندہ علاقوں سے الگ تھلگ کر دیاجاتا ہے۔ بھارت  کی مقامی آبادی، جو طویل عرصے سے زوجیلا پاس کی غیر متوقع نوعیت کی وجہ سے ہونے والی مشکلات کو برداشت کر رہی ہے، سرنگ کی تکمیل کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے۔ بہت سے رہائشیوں کو سردیوں کے مہینوں میں  دیگر علاقوں سے کٹ جانے  کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے بنیادی سامان اور طبی ہنگامی سہولیات   ختم ہو جاتی ہیں۔

ایک رہائشی، بشیر احمد بھٹ نے اس منصوبے  پر کہا کہ”زوجیلا ٹنل ہماری زندگیوں کو بہتر ی  میں   بدل دے گی۔ اس سے نہ صرف اشیا اور لوگوں کی نقل و حرکت میں آسانی ہوگی بلکہ خطے میں تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔ اس سے ہمارے دور دراز دیہاتوں میں معاشی مواقع اور خوشحالی آئے گی۔

اس سرنگ سے خطے میں سیاحت پر بھی مثبت اثر پڑنے کی توقع ہے۔ بہتر آمدو رفت اور  رسائی کے ساتھ، زیادہ سیاحوں کے علاقے کی خوبصورت وادیوں اور قدیم جھیلوں کا دورہ کرنے کا امکان بھی بڑھے گا ، جو  بھارت کی مقامی معیشت کی مجموعی ترقی میں  اہم کردار ادا کرتی ہے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں