تاریخ کے ہیروز

تاریخ کے ہیروز کو لٹیرے کس نے کہا

“تاریخ کے ہیروز کو لٹیرے کس نے کہا؟”

ہندووں سے تعلیم حاصل کرنیوالے آپ کو یہ تو بتائیں گے کہ محمود غزنوی ایک لٹیرا تھا مگر یہ نہیں بتائیں گے کہ اسے اسکالر کا اغوا کار بھی کہا جاتا ہے۔

محمود ہر قابل ریسرچر کو ہرقیمت پر اپنے ہاں بلوا لیتا تھا اور ان پر سالانہ چار لاکھ سونے کے درہم خرچ کرتا تھا، بیہقی، فردوسی اور البیرونی کو اسی نے فائنانس کیا تھا، غزنی کو اس نے مسجدوں، مدرسوں اور لائبریریوں کا شہر بنا دیا تھا۔

پنجاب میں اس کے دور کے نظام انصاف، پولیس، ڈاک، اکیڈمک اور سوشل سروسز کو اس دور کے شاعر سعد سلمان نے بہت تفصیل سے قلمبند کیا ہے۔

جدید ریسرچر آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ اس کی فوج میں ہندو بھی کثیر تعداد میں شامل تھے اور اس کا ایک جرنیل، تلک، بھی ہندو تھا۔

نہ یہ بتائیں گے کہ سبکتگین کو بیمار، بوڑھا اور کمزور سمجھ کے غزنی پر پہلا حملہ پنجاب کے حکمران جے پال نے کیا تھا جو برفباری کی وجہ سے ناکام ہوگیا، پھر دوسرا بھی اسی نے کیا تھا جس کی حملہ دار فوجی قوت 12000 گھڑ سوار، 30000 پیادہ اور 300 ہاتھیوں پر مشتمل تھی۔

محمود اس وقت ٹین ایجر تھا جب اس نے 15000 کے لشکر سے اپنا دفاع اس طرح کیا کہ جیپال اپنی آدھی فوج کٹوا کے تاوان کے بدلے منت سماجت پہ اتر آیا مگر لاہور واپس جا کے تاوان لینے کیلئے ساتھ لائے ہوئے وفد کو قتل کرکے محمود کو پیغام بھیجا کہ ہمت ہے تو لے لو، پھر اس نے ہمت کرکے پنجاب ہی لے لیا اور اسے غزنی کا صوبہ قرار دے دیا۔

پہلی شکست کے بعد اس نے ممکنہ حملے سے بچنے کیلئے دیگر راجاؤں سے بھی کمک مانگی تھی مگر سب نے جواب دے دیا تھا کہ پنگا تم نے خود لیا اور پھر سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرکے اس کے وفد کو بھی قتل کر دیا۔

پنجاب میں شکست کے بعد اس نے قوم کے سامنے خود کو آگ لگا کے کہا تھا کہ راجاؤں نے میری مدد نہ کرکے مذہب سے غداری کی ہے، لہذا قوم ان راجاؤں کو سبق سکھائے، اس طرح وہ مرتے مرتے اپنی اس سیاسی مہم جوئی کو مذہبی جنگ میں بدل گیا، جیتے جی ستی ہو کر نہ مرتا تو محمود کے ہاتھوں اس نے ویسے بھی مارا ہی جانا تھا مگر وہ ایک نیا کھیل کھیل گیا۔

اس سے اگلا معرکہ جیپال کے بیٹے انندپال نے دیگر راجاؤں کی مدد سے مذہب کے نام پہ لڑا تھا جس میں بھاری نقصان اٹھانے والے دیگر راجے بھی اپنی شکست کا بدلہ لینے اور پنجاب پر سے مسلم حکمرانی کو چکتا کرنے کیلئے جس جس جگہ بھی قوت جمع کرتے گئے وہی محمود کے غضب کا شکار ہوتی گئی جبکہ ان کا مرکز سومناتھ تھا جس تک پہنچتے پہنچتے محمود کو چھبیس سال لگے۔

ہندو تاریخ دان یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ سومناتھ میں میگنٹ فیلڈ سے معلق کئے گئے بتوں کو چمتکار قرار دے کر ہندو قوم کو ڈرا ڈرا کے سالانہ منوں سونا اور لاکھوں کی مقدار میں نقدی بٹورنے والے پنڈتوں کا کھیل ختم کیا تھا نہ کہ عام عوام کو لوٹا تھا، پیسہ اور سونا تو وہ خود بھی دینے کو تیار تھے مگر محمود اس چمتکار کو توڑنا چاہتا تھا کیونکہ ہوا میں معلق بتوں کو دیکھ کے خود محمود کے جرنیل اس قدر مرعوب ہو گئے تھے کہ اس گفت و شنید میں پنڈتوں سے بھی گھبرانے لگے تھے، پھر ان کی کٹ لگا کے میگنٹ فیلڈ کا راز اگلوایا گیا تھا۔

محمود پر درجن سے زائد کتابیں موجود ہیں، ان میں ایک بھی یہ نہیں کہتا کہ اس نے دیہاتوں میں گھس کے عوام کے گھروں کو لوٹا تھا، چھ سو سال بعد فرشتہ لکھی گئی جو مقامی تھی اور محمود نے پیسے دے کر نہیں لکھوائی تھی، باقی سب ایران، برطانیہ اور دیگر اقوام کی ہیں جو گاہے بگاہے غزنی کو عالم اسلام کا ایک بہترین مرکز مان کے لکھی گئی ہیں۔

ان میں سے ایک آدھ ہندو نواز کے علاوہ کوئی بھی اسے لوٹر قرار نہیں دیتا، دنیا کا وہ کونسا غیر مسلم حکمران ہے جس نے جنگ فتح کرنے کے بعد مال غنیمت اکٹھا نہ کیا ہو، اسے لوٹنا تھوڑی کہتے ہیں، یہ دشمن کو تہی دست اور بے وسیلہ کرنے کیلئے ایک ضروری جنگی اقدام ہوتا ہے، صلاح الدین ایوبیؒ سے لڑنے والا رچرڈ شیردل بھی ایک عیسائی حکمران کو ایک لاکھ پونڈ کا تاوان دے کر چھوٹا تھا، وہ بھی جسٹ فار نتھنگ۔

پھر اس بات کو پھیلانے میں بھی کوئی نہیں سوائے تین گروہوں کے، ان میں ایک تو ہندو ہیں، دوسرے وہ جو ملتان کی قرامطی حکومت کے خاتمے پر متاسف ہیں اور تیسرے سوال کی حرمت کے اور ڈی۔کنسٹرکشن کے مارے، جو بذات خود لوٹرز ہیں۔

انہیں پتا ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر سلائے بغیر ایسی جدیدیت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی جس میں مادر پدر آزاد سماجی نظام کو مسلمانوں کے ردعمل سے کوئی خطرہ نہ ہو لہذا سب سے پہلے اپنی تاریخ کے نظریاتی اور جزباتی لگاؤ سے کاٹ کے انہیں ماضی کے مزاروں سے نکالا جائے پھر ایک سائنٹیفک معاشرہ قائم ہوجائے گا۔

یہی حال محمد بن قاسم کیساتھ ہے، اس کے مقابلے میں راجہ داہر کو “سن آف سائل” قرار دے کے ایک نیا منجن بیچا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں