طوطے ہم سے کیوں روٹھ گئے؟؟
طوطے عام پرندوں کی طرح درختوں کی ٹہنیوں پر گھونسلہ نہیں بناتے. یہ درختوں میں بنے سوراخوں کے اندر رہتے اور انڈے دیتے ہیں۔ یہ خود درختوں کے تنوں میں سوراخ نہیں کر سکتے بلکہ ان کے لئے یہ کام کٹھ بَڑھَئی، کَٹھ پہوڑا، ہُد ہُد اور ہُد ہُد نَسَل کے باقی پرندے اور قدرت کرتی ہے۔ ہدہد اپنی لمبی اور مضبوط چونچ کی مدد سے درختوں میں اپنے رہنے اور خوراک کے لئے سوراخ بناتے ہیں اور ان میں رہتے اور انڈے دیتے ہیں۔
طوطے انہی ہد ہد کے چھوڑے ہوئے سوراخوں کو اپنے گھونسلوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی رہائش کے لئے سوراخوں کا دوسرا ذریعہ درختوں میں مختلف وجوہات کی کی بنا پر بن جانے والی گہری دراڑیں ہیں۔
طوطے عام حالات میں کبھی بھی اپنا گھونسلہ نہیں بدلتے، ایک بار جو سوراخ رہائش کے لئے منتخب کر لیا پھر اسی میں ہر دفعہ انڈے دیتے ہیں۔
طوطے سال میں ایک یا دو دفعہ انڈے دیتے ہیں ایک دفعہ میں انڈوں کی تعداد دو سے چار تک ہوتی ہے جن سے 22 سے 24 دنوں میں بچے نکل آتے ہیں۔
بچے تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد سوراخ سے نکل کر اڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد دو تین مہینوں تک یہ ماں کے ساتھ ہی رہتے اور زندگی گذارنے کی مہارتیں سیکھتے ہیں۔ طوطے کا بچہ تین سال کی عمر میں جوان ہوتا ہے۔ عام طور پر طوطے کی عمر 30 سے 35 سال تک ہو سکتی ہے۔
طوطے کا شمار حلال پرندوں میں نہیں ہوتا نہ ہی اسے خوراک کے لئے شکار کیا جاتا ہے پھر بھی اس کے معدوم ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا بھی کچھ مشکل نہیں آئیے کوشش کرتے ہیں تفصیل سے سمجھنے کی۔
1990 سے پہلے تک طوطا بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا مگر 30 سال کے مختصر عرصے میں ان کی آبادی کم ہو کر خاتمے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
طوطا جسے ہر گھر میں پیار سے میاں مٹھو بلایا جاتا تھا آج اس کی نسل کے خاتمے کا کسی کو احساس تک نہیں ہو رہا۔ نہ عوام نہ متعلقہ حکومتی اداروں میں اور نہ ہی ماحولیاتی تحفظ کے کھوکھلے دعوے کرنے والی بڑی بڑی این جی اوز کو بھی۔ بے حسی اور جہالت کی انتہاء اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آج تک حکومتی ایوانوں میں ناپید ہونے کے خطرات سے دوچار پرندوں کی نسلوں کے لئے کوئی قانون بنا کر ان کی خریدوفروخت اور شکار پر پابندی لگانے کے بارے میں سوچا تک نہیں گیا۔
طوطوں سمیت باقی جنگلی حیات کی معدومیت کی سب سے بڑی وجہ وہ ہے دریاؤں، نہروں، راجباہوں اور سڑکوں کے کناروں پر موجود درختوں اور قدرتی جنگلات کا مکمل خاتمہ ہے۔۔
انتہائی افسوسناک اور سر شرم سے جھکا دینے والی سچائی یہ ہے کہ ھمارے ھاں تعمیر و ترقی کے کام اسقدر بے ڈھنگے پن اور بیدردی سے کیے جاتے پیں کہ ہزاروں لاکھوں درخت تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں جس سے جنگلی حیات اور ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور اسپر مستزاد یہ کہ آج تک کسی بھی حکومت یا عوام کو اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس ہوا ہے کہ اس نقصان عظیم کی کچھ تلافی بھی کی جائے۔ دوبارہ سے ان درختوں کو اگانے کی کوئی منظم کوششیں شروع کی جائیں تاکہ ان بچے کچھے کچھ جانوروں، پرندوں اور رپٹائلز کی نسلوں کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ انکے بغیر اپنے ان علاقوں پر چھائی اس منحوسیت اور خالی پن سے چھٹکارا ملے۔
دوسری وجہ عوام میں ماحولیاتی شعور نہ ہونا ہے ہر جگہ سے پرانے مقامی درختوں کی کٹائی اور ان کی جگہ بجائے نئے مقامی درخت لگانے کے بدیسی کونو کارپس وغیرہ جیسے درخت لگا دینا بھی طوطے اور دوسرے پرندوں کی نسل کشی کی ایک وجہ ہے۔ جو تھوڑے بہت بچے ہیں انہیں شکاری حضرات پکڑ کر بڑے شہروں کھلے عام مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔
جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کے حوالے سے یہ قوم اور اس کے حکمران ابھی تک تو غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ سبھی کو چاہئیے کہ قدرتی ماحول کی بحالی کے کام کی شروعات اپنے گھروں سے کریں۔ حکومت کو بھی جگانے کی مہم شروع کی جائے کہ سڑکوں اور دیگر تعمیراتی کاموں کے دوران درختوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ نہروں، سڑکوں اور راجباہوں کے کنارے درخت لگائیں اور ان کے تحفظ کے لئے موثر قانون سازی کی جائے۔ جانوروں کو تحفظ دیں شکار یا شوق کی خاطر انہیں مارنے کی حوصلہ شکنی کریں اپنے بچوں کو جنگلی حیات کے تحفظ اور ان کی اہمیت سے آگاہ کریں.