دیسی کُکُڑ

دیسی کُکُڑ

دیسی کُکُڑ

گئے وقتوں میں مُرغ کھانے کی عیاشی روز روز نہیں ہوتی تھی۔جب کوئی بہت خاص مہمان آتا تو امی کہتیں کہ مرغا پکڑو ذبہہ کرنا ہے
مرغا پکڑنا ڈان کو پکڑنے سے کچھ زیادہ ہی مُشکل تھا ہم دو تین بندے اُسکے پیچھے لگتے مرغا اوڈاری لگاتا تو دو ڈوگے(کھیت) آرام سے کراس کر جاتا ہم بھی تامل فلموں کے پولیس آفیسروں کی طرح مُرغے کے پیچھے یوں پڑتے جیسے اس کے بعد ہماری زندگی میں سے چیلنجز کا خاتمہ ہو جانا تھا۔وہ کبھی
چہال(وائلڈ روز) میں گُھستا کبھی تو کبھی سُنبل میں تین پڑوسیوں کی پوری زمینوں کا چکر لگوا کر آخر کار ہم یہ جوے شیر نکالنے میں کامیاب ہوتے اور آخر کار مرغا پکڑا جاتا ہم بھی اپنی گردن کو اکڑا کر امی کی خدمت میں حاضر ہوتے جو ہمیں بارہ انچ پھل والی چھری دیکر مُرغا ذبع کروانے بھیج دیتیں۔ابا مرغا ذبع کرتے اور دیسی مرغا جان جانے سے پہلے پہلے پورے زور سے پھڑکتا اور خون کے قطرے ہمار کپڑوں کو رنگین کر دیتے۔بہرحال مرغا ہم گھر پہنچاتے جہاں اُس کے پر صاف کرنے کے لیے بار بار کھولتا ہوا پانی تیار ہوتا۔جو مرغے پر اُنڈیلہ جاتا۔اُس کے پر صاف کیے جاتے اُس کے بعد باریک بالوں کو جلایا جاتا مرغے کی کھال تب کوئی نہیں اُتارتا تھا۔مرغے کو کاٹتے ہوے امی ہمیں کالیسا(کلیجی) اور بوٹا(پوٹا) کوئلوں پر پکا کر دیتیں جو ہمیں مرغے کو زندہ گرفتار کرنے کے عوض عطا کیا جاتا۔ہم اتراتے پھرتے کہ ہم نے مُرغا پکڑا۔یوں سب مصالعے تیار کرنے کے بعد دیگچی میں مرغے کا گوشت ڈالا جاتا پھر امی ہمیں بھیجتیں کی پھاواڑے(انجیر) کی ٹہنی توڑ کے لاو وہ اُسے چھیل کر دیگچی میں ڈال دیتیں جس کا راز آج تک ہم پر آشکار نہ ہو سکا کہ کیا وجہ تھی۔ پورا محلہ مُرغے کے گوشت کی خُوشبو سے مہک جاتا۔اس کی اشتہا انگیز خُوشبو ہمارے بھوک کو تیز تر کر دیتی۔ساتھ میں چاول،دیسی سبزی اور چپاتی بھی پکتی۔ہری مرچ کی چٹنی میں اخروٹ اور سکّی(خوبانی کو ڈرائی کرکے بنائی گئی روٹی) کے ٹکڑے اور تمبر ڈالا جاتاساتھ میں تھوڑی سی ببری جو چٹنی کو خوشبو دار کر دیتی۔
سلاد میں دیسی مولیاں پیاز اور چیغن(دیسی ٹماٹر جو چپٹے سے ہوتے تھے) ڈالے جاتے ۔دستر خوان بچھایا جاتا اور تھالیوں میں چاول اور سالن ڈال کے دیا جاتا ساتھ میں چپاتی اور سالن بھی ڈالا جاتا۔پھر امی کے لیے سَلہّ (گردن) اور پنگڑاٹھیاں(چکن ونگز) بچتیں آخر میں وہ وہی کھاتیں اور ہمیں کہتی ہمیں پسند ہی یہی ہیں۔ اور ہم ازل کے نادان یہی سوچتے کہ واقعی ایسا ہی ہے حالانکہ وہ صابر اور شاکر خواتین ہمیں کھلا کر خوش رہتیں تھیں۔ کیونکہ تب مُرغا کبھی کبھار ہی پکتا تھا۔ بچی ہوئیں ہڈیاں سمیٹ کر ہم کتّے کو ڈال دیتے اور کافی دیر تک اُس کے منہ میں ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں آتی رہتیں۔ یوں مرغے کا قصہ تمام ہوتا۔آجکل اچھے سے اچھے ریسٹورنٹ پر مُرغا کھانے کا وہ سواد نہیں ملتا کیونکہ مُرغے کی وہ عزت اور اُس کے گوشت میں وہ طاقت باقی نہیں رہی۔

اپنا تبصرہ لکھیں