ڈاکٹر عمر عزیز

ڈاکٹر عمر عزیز کے خوبصورت اشعار

اس سے ملتا ہوں ملاقات نہیں بھی ہوتی
ساتھ ہوتی ہے مگر ساتھ نہیں بھی ہوتی

اس کی مجھ پر ہے حکومت تو ہوا کیا یارو
چند رشتوں میں مساوات نہیں بھی ہوتی

اس کا اظہارِ محبت ہے خفا ہو جانا
جبکہ لڑنے کی کوئی بات نہیں بھی ہوتی

عظیم محلوں میں رہنے والے عظیم لوگو
جو بے مکاں ہے وہ بے مکانی کو جانتا ہے

آسانی میں آیا ہوں تو جانا ہے
کتنی مشکل ہوتی ہے آسانی میں

گھر چھوڑو، پہچان بھی جاتی رہتی ہے
اک مشکل ہے یہ بھی نقل مکانی میں

عادت ہے مجھے اوج پہ رہنے کی ہمیشہ
یوں ہی تو ہواؤں سے میری ٹھن نہیں جاتی

بھیک سے پیٹ بھرنے والوں کی
مرضیاں، عزتیں نہیں ہوتیں

کچھ تو حالات کے ڈر سے ہی چلےجاتےہیں
کچھ کو مجوریِ حالات نہیں بھی ہوتی

کیا ضروری ہےکہ ہرہاتھ چمکتانکلے
آستیں جائےکمالات نہیں بھی ہوتی

اس کی مجھ پرہےحکومت توہواکیایارو
چندرشتوں میں مساوات نہیں بھی ہوتی

ہم وہ خوشبخت جنہیں پھول ملاکرتےہیں
اورکچھ وجہ مدارات نہیں بھی ہوتی

ظالموں پر دراز ہوتی ہوئی
رسیاں، رحمتیں نہیں ہوتیں

ظلم سے دل میں گھر نہیں بنتے
جبر سے عزتیں نہیں ہوتیں

جنگ میں اور سیاستوں میں ہدف
بزدلو! عورتیں نہیں ہوتیں

اپنے رستے ہوئے زخموں کی شکایت کرنا
اس کو کہتے ہیں محبت میں تجارت کرنا

کل اسی دشت میں زم زم کا حوالہ ہوں گے
ہم کو آتا ہی نہیں عشق میں ہجرت کرنا

اس لیے بھی ہم شاید راج کر نہیں پاتے
ہم سے اپنے لوگوں پر سختیاں نہیں ہوتیں

میرے دل میں گھر کرنا یوں بھی غیر ممکن ہے
دشت میں بیاباں میں بستیاں نہیں ہوتیں

اس لیے بھی ہم شاید راج کر نہیں پاتے
ہم سے اپنے لوگوں پر سختیاں نہیں ہوتیں

عشق کے مدارج میں مرتبے تو ہوتے ہیں
عشق کی مجالس میں کرسیاں نہیں ہوتیں

وہاں پھر عشق چلتا ہے
جہاں شہپر نہیں چلتے

طوافِ کعبہِ دل میں
لکیروں پر نہیں چلتے

ادھر صدائے بغاوت کی گونج تھی ہر سو
ادھر فرار کے رستے سجھائی دینے لگے

صاف لگتا ہے کہ سوچا ہے بہت دیر تلک
ہجر کا فیصلہ یکدم تو نہیں ہوسکتا

جو لا فنا ہے جہانِ فانی کو جانتا ہے
سو اک خدا ہے جو اس کہانی کو جانتا ہے

کوئی زیاں اور کوئی خسارہ نیا نہیں اب
دل ایک مدت سے رائیگانی کو جانتا ہے

عظیم محلوں میں رہنے والے عظیم لوگو
جو بے مکاں ہے وہ بے مکانی کو جانتا ہے

جیسے اپنے لوگ نہیں بھی اپنے ہوتے
ایسے کچھ انجان ہمارے ہو سکتے ہیں

کسی کو وصل کسی کو جدائی دیتا ہے
خدا کرے تو بتوں کو خدائی دیتا ہے

بدن، اداسی، اندھیرا، ہوائیں، خاموشی
بجھیں چراغ تو کیا کیا سنائی دیتا ہے

جو اس کا ہو وہ کسی اور کا نہ ہو جائے
وہ اپنی قید سے کم کم رہائی دیتا ہے

ہم تمھیں بتائیں گے حرمتیں بیاباں کی
ہم ہیں آخری یارو وحشتوں کے مارے لوگ

بیج بو کے شب بھر میں خواہشیں گلابوں کی
کیا عجیب ہوتے ہیں عجلتوں کے مارے لوگ

ایسی نعمت پہ تُف کہ پیاسا جب
ریت کھودے تو تیل مل جائے

جس طرح گئی ہے تیرے دل سے اچانک
اس طرح محبت تو یقیناً نہیں جاتی

فقط کچھ نام ہی بدلے گئے تھے
ہمارے حکمران اب تک وہی ہیں

وقت ایسے کٹا روانی میں
ایک ناؤ تھی تیز پانی میں

اس سے بڑھ کر کون رہا نادانی میں
حُسن کو جو بھی ڈھونڈتا ہے عریانی میں

جتنے گہرے اتنے روشن
دل کے داغ عجب ہوتے ہیں

عادت ہے مجھے اوج پہ رہنے کی ہمیشہ
یوں ہی تو ہواؤں سے میری ٹھن نہیں جاتی

وہ جس کے دم سے تھا شہر روشن
وہ شخص جانے کدھر گیا ہے

کیسی کیسی تصویریں
تیری میری تصویریں

کیسے چپ کراؤ گے
چیختی ہیں تصویریں

چپ کھڑے ہیں سب لمحے
بولتی ہیں تصویریں

ان میں رک چکی لیکن
زندگی ہیں تصویریں

رو رہے ہیں سارے لوگ
ہنس رہی ہیں تصویریں

ہاتھ میں ہمارے بس
رہ گئی ہیں تصویریں

پہلے ہم نے کھینچیں، اب
کھینچتی ہیں تصویریں

اپنا تبصرہ لکھیں