سنو آذاد کر دو

‏سنو آذاد کر دو مجھے اس درد سے

سنو آذاد کر دو مجھے اس درد سے

اکیلا دربدر بھٹکنے کے بعد زمین پہ اوندھے منہ پڑھے اکھڑتی سانسوں پہ چاند نما شخص کی ایک ہی آس تھی کہ کوئی تو آئے جو اس کو اس درد سے آزاد کرئے کوئی تو آئے جو ان بیڑیوں کو کاٹ کر آزاد کر دے دنیا کے ان فریبی رشتوں سے وہ درد سے کراہ رہا تھا.

اس کی چیخیں اس کے اندر دبی پڑی تھیں وہ چیخ رہا تھا مگر اس کی آواز گم تھی ارمانوں کا خون اس کے جسم سے رستے خواطب سے زیادہ تکلیف دہ تھا اپنوں کے زخم کا درد جسم پے لگے ان بیڑیوں کے درد سے زیادہ ناسور تھا وہ بلک رہا رھا تھا.
درد شدت سے جو اس کی سمجھ سے بائر تھا کہ آخر درد کی تلخی کا ذائقہ اتنا کڑوا کیوں ھے وہ خاموش دور آسمان پہ چاند کو دیکھنے لگا جو اپنی پوری جوبن سے چمک رہا تھا شاید چاند کو احساس ھوا اس نے اپنی روشنی اس چاند نما شخص پہ بھرپور ڈالی چاند نما شخص کو اپنائیت کا احساس ھوا تو اس نے اپنا آپ چاند کی روشنی کے حوالے کر دیا.
چاند نما شخص نے سکون سے ایک آخری سانس بھری اور اپنا آپ چاند کی آغوش کو سونپ کر آنکھ موندھ لی ۔۔ اب چاند نما شخص بس چاند کی آغوش میں اک آس سے گہری نیند سو رہا ھے کہ شاید کوئی مہربان آ کر اس چاند نما شخص کو اس درد سے آزاد کر دے گا سنو شور مت کرنا چاند نما شخص جاگ گیا تو درد کی حدت سہہ نہ پائے گا.

اپنا تبصرہ لکھیں