دسمبرشاعری

امکان یہی ہے کہ وہ امکان رہے گا

امکان یہی ہے کہ وہ امکان رہے گا
یعنی یہ پریشان ، پریشان رہے گا
جس موڑ پہ ملنا ہے وہیں تک ہے یہ مشکل
آگے کا سفر ساتھ میں آسان رہے گا
دنیا سے نکلنا ہے تو ہے عشق ہی رستہ
پھر اپنی طرف تیرا کہاں دھیان رہے گا
ہر بار یہی سمجھے گا سمجھا تو کہانی
ہر بار مرے یار تُو حیران رہے گا
اتنا تو چلو عشق و محبت میں کمایا
اب دل میں کوئی اور نہ ارمان رہے گا
کہنے کو کواڑوں پہ بہاروں کی ہے دستک
اندر کا بیابان ، بیابان رہے گا
تم چاہے کہانی سے مرا نام مٹا دو
مٹ کر بھی مرا نام ہی عنوان رہے گا
رخصت کی گھڑی ہم کو یہ معلوم نہیں تھا
تا عمر کوئی دل ہی میں مہمان رہے گا
اس شخص سے اب میرا تعلق ہے بس اتنا
جب تک ہے مری جان مری جان رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

اپنا تبصرہ لکھیں