احمد فراز کی بہترین اورمشہورشاعری

احمد فراز کی بہترین اورمشہورشاعری (Ahmed Faraz)

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں !

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں

ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سب ہی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں

کوئی بھی فیصلہ دینا ابھی درست نہیں…
کہ واقعات ابھی کروٹیں بدلتے ہیں.

اب اس کا تغافل بھی گوارا کہ ابھی تک…
ہم ترکِ ملاقات کی خواری نہیں بھولے

قیامت ہے کہ ہر مے خوار پیاسا…
مگر کوئی حریفِ جم نہیں ہے.

دکھ ہوا جب اس در پر کل فراز کو دیکھا…
لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی

ہم ایسے خانہ بر انداز، کنج غربت میں…
جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں

کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے…
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں…
مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تو بھی

ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں…
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ

فراز دل کو نگاہوں سے اختلاف رہا…
وگرنہ شہر میں ہم شکل صورتیں تھیں بہت

ہونٹ ہیروں سے نہ چہرہ ہے ستارے…
پھِر بھی لادے تو کوئی دوست ہمارے کی مثال

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا…
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

تجھ سے کہنا تو نہیں چاہیے پر کہتے ہیں…
ہم نے بھی دولتِ جاں اب کے لٹانی کم ہے

یہ گل شدہ سی جو شمعیں دکھائی دیتی ہیں…
ہنر ان آنکھوں کا آگے ستارہ سازی تھا

فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ…
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے

اتنے ناصح ملے رستے میں کہ توبہ توبہ…
بڑی مشکل سے میں شوریدہ سروں تک پہنچا

ہوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ…
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے

محفلِ جاناں ہو، مقتل ہو کہ میخانہ فراز…
جس جگہ جائیں بنا لیتے ہیں ہم اپنی جگہ

میں کہ پر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں…
اب کہ ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں

عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی…
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے

دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ…
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی

جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں…
کہ دوستوں میں ،کبھی دشمنوں میں ہوتے ہیں

اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے…
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے

نہیں ہے تاب تو پھر عاشقی کی راہ نہ چل…
یہ کارزار جنوں ہے جگر نکال کے رکھ

شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز…
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے

تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری…
لوگ مر جائیں بلا سے تیری

شعار اپنا ہی جس کا بہانہ سازی تھا…
وہ میرے جھوٹ سے خوش تھا نہ سچ پہ راضی تھا

خیالِ یار کا بادل اگر کھلا بھی کبھی…
تو دھوپ پھیل گئی جا بجا اداسی کی

اس در پہ یہ عالم ہوا دل کا کہ لبوں پر…
کیا حرفِ تمنا کہ دعا تک نہیں آئی

جہاں بھی جانا تو آنکھوں میں خواب بھر لانا…
یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا

میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا…
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے

ہے ترکِ تعلق ہی مداوائے غمِ جاں…
پر ترکِ تعلق تو بہت خوار کرے ہے

ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر…
کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے

اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی…
اُس سے ذرا سا ربط بڑھانا بہت ہوا

کبھی ہم پر بھی ہو احسان کہ بنا دیتے ہو…
اپنی آمد سے بیاباں کو چمن تم جیسے

فراز آج کی دنیا مرے وجود میں ہے…
مرے سخن کو فقط میرا تذکرہ نہ سمجھ

ہر ایک عشق کے بعد اور اس کے عشق کے بعد…
فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا

اس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو…
اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں‌دوستو

اور کچھ دن بیٹھنے دو کوئے جاناں میں ہمیں…
رفتہ رفتہ سایۂ دیوار بن جائیں گے ہم

دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے…
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے

جتنی بے مہر، مہرباں اتنی…
جتنی دشوار ، اتنی سادہ تھی

ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا…
سبھی نے وعدہ فردا پہ ٹال رکھا ہے

اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں…
اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے

کروں نہ یاد اگر کس طرح بھلاؤں اسے…
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے

میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں…
میں اس کو بھول گیا ہوں ، یہی سزا تھی مری

وفا پہ سخت گراں ہے ترا وصالِ دوام…
کہ تجھ سے مل کے بچھڑنا مری تمنا تھی

جس طرح تم گزرتے ہو فراز…
زندگی اس طرح گزرتی نہیں

تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے…
عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے ، یوں ہے

جو کچھ ہو فراز اپنے تئیں ، یار کے آگے…
اس سے تو کوئی بات بنا تک نہیں ہوئی

اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز…
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا

احتیاط اہل محبت کہ اسی شہر میں لوگ…
گل بدست آتے ہیں اور پایہ رسن جاتے ہیں

حسابِ لطفِ حریفاں کیا ہے جب تو کھلا…
کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے

دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری…
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو

رہِ طلب میں کسی کو کسی کا دھیان نہیں…
ہجومِ ہم سفراں ہے قریب آ جاؤ

فقیہِ شہر کی مجلس نہیں کہ دور رہو…
یہ بزمِ پیرِ مغاں ہے قریب آ جاؤ

وہ مہرباں ہے مگر دل کی حرص بھی کم ہو…
طلب، کرم سے زیادہ ہے کیا کیا جائے

سنا ہے دیر و حرم میں تو وہ نہیں‌ملتا…
سو اب کے اس کو سرِ دار چل کے دیکھتے ہیں

کاش تو بھی میری آواز کہیں سُنتا ہو…
پھر پُکارا ہے تُجھے دِل کی صدا نے میرے

ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا…
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا

وفا کے خواب، محبت کا آسرا لے جا…
اگر چلا ہے تو جو کچھ مجھے دیا لے جا

تو محبت سے کوئی چال تو چل…
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے…
نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اس کے…
کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی

اپنا تبصرہ لکھیں