اعتبار ساجد

اعتبار ساجد کی خوبصورت نظم “چاندنی دسمبر کی”

چاندنی دسمبر کی

رات اس نے پوچھا تھا :
“تم کو کیسی لگتی ہے؟
چاندنی دسمبر کی ۔۔۔ !”
میں نے کہنا چاہا تھا :
“چاند ہمسفر ہو جب
سال و مہ کےبارے میں
گفتگو کے کیا معنی؟
چاہے کوئی منظر ہو
جون ہو، دسمبر، ہو
دھڑکنوں کا ہر نغمہ
قربتوں کا ہر لمحہ
منظروں پہ بھاری ہے
پھر… ہرایک منظر پر
ایسا لگتا ہے ۔۔۔ جیسے
اک نشہ سا طاری ہے”
لیکن، اس کی قربت میں
کچھ نہیں کہا میں نے
تکتی رہ گئی مجھ کو
چاندنی دسمبر کی !

اعتبار ساجد

اپنا تبصرہ لکھیں