یونیورسٹی

بہت جلدسکول، کالج، مدرسہ یونیورسٹی جانا بیکار ھو جائے گا

آپ میرے ساتھ متفق ھوں یا نا ھوں کچھ غور ضرور کیجئے گا؛
وقت بہت قریب ھے جب سکول، کالج، مدرسہ یونیورسٹی جا کے پڑھنا بے معنی ھو جائے گا جس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ھیں۔
صرف کلاسز کی گنتی اور فیسیں جمع کرانے کے لئے کسی بھی درسگاہ میں اب بھی رسمی طور پر جایا جاتا ھے۔
کتنے لوگ ھیں جو سکول کالج جانے کے باوجود پیپر دیتے وقت نقل کا سہارا لیتے ھیں اور باقاعدہ نقل کرائی جاتی ھے !!!
کتنے لوگ ھیں جو سارا سال کالج نھیں جاتے فیس جمع کرانے یا داخلہ بھیجنے یا رولنمبر سلپ لینے یا پھر پیپر دینے کے علاوہ کوئی رول نھیں کالج جانے کا، تو کیوں نا کالجز ختم ھی کر دئیے جائیں قوم کا جو ناحق وقت اور پیسہ برباد کیا جاتا ھے بچے گا!!!
کتنے لوگوں کو میں جانتا ھوں جو پیپر سے ایک دن پہلے کتاب خریدتے ھیں تو کالجز کی اہمیت کیا ھوئی پھر ؟؟
بہتر ھے پیپر کتاب سے دیکھ کر لکھنے کی اجازت ھو گھر بیٹھ کر پیپر دیا جائے کچھ تو پلے پڑے گا آرام سکون سے دیکھ کے لکھتے ھوئے یا جواب تلاش کرتے ھوئے کچھ تو دماغ میں بیٹھے گا، کمرہ امتحان میں تو نقل کرنے والا ڈر ڈر کے لکھتا ھے۔
ھر جگہ طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ھے جس سے طالب علم کے پلے کچھ پڑے۔
پریکٹیکل کی سہولت کالج میں ھونے کے باوجود کسی کو پریکٹیکل کرنا نھیں آتا۔
آئی سی ایس پاس سٹوڈنٹ سے کمپیوٹر میں ونڈوز انسٹال نھیں ھوتی۔ مکینیکل انجینئرنگ پاس کرنے والا اپنی گاڑی تک سٹارٹ نھیں کر سکتا، الیکٹریکل انجینیرنگ پاس گھر کی بجلی تک ٹھیک نھیں کر سکتا، ٹیکنیکل کالج کی بجلی ٹھیک کرنے انپڑھ مکینک آتا ھے، ڈاکٹر کالج سے فارغ ھونے پر سر درد کی دوا تک نھیں دے سکتا خصوصاََ اس کے گھر والے لازمی کسی دوسرے ڈاکٹر کو چیک کراتے ھیں جب تک وہ کئی سال پریکٹس نا کر لے۔ کیا کبھی کسی سول انجینئرنگ پاس نے اپنے گھر میں ایک اینٹ تک کی چنائی کی ھے ؟ اینٹیں ان پڑھ مستری ھی لگاتا ھے۔سول انجینیئر پلستر نھیں کر سکتا وال پینٹ نھیں کر سکتا بلکہ ایسا کرنا وہ اپنی بے عزتی سمجھتا ھے۔
حقیقت یہ ھے کہ جب کوئی کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ھو جائے اسے اس کی اہلیت کے مطابق کام پر لگاتے جائیں۔ جو زیادہ پڑھنا چاھے اسے زیادہ پڑھائیں اور اس کی قابلیت کے مطابق اس سے کام لیا جائے۔
مزے کی بات ھے وہ لوگ اچھے اچھے عہدوں پر بھی براجمان ھوتے ھیں جنھیں پریکٹیکل کی ککھ سمجھ نھیں ھوتی اور ماھر انپڑھ کاریگروں کے اوپر آفیسر لگے ھوتے ھیں ان کی صلاحیتوں کو دبانے کے لئے، ھے نا بد بختی کی بات!!!!
ھم دیکھتے ھیں کہ پریپ کلاس کے بچے کی کم سے کم سات کتابیں ھوتی ھیں، سات کاپیاں ھوتی ھیں، ایک ہوم ورک ڈائری ھوتی ھے، ایک کلاس ورک ڈائری ھوتی ھے، ایک سوشل ورک کی ڈائری ھوتی ھے یارو یقین کریں بچے سکول سے گھر، گھر سے ٹیوشن، پھر سپارہ پڑھنے پھر عشاء کا وقت ھو جاتا ھے بچہ ماں باپ کے ساتھ بیٹھ نھیں سکتا اور والدین بھی اسے ساری سرگرمیوں پر سختی سے عمل کرانے پر مجبور اور ساتھ والے بچوں سے زیادہ نمبر لینے کے لئے تیار کر رھے ھوتے ھیں اور بچہ بیچارہ ماں باپ سے ذہنی اور جسمانی طور پر دور، بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ نھیں سکتا، گھر میں سب افراد کی آپس میں ذہنی ھم آہنگی اسی وجہ سے نھی کیونکہ ھم نے کبھی مل بیٹھ کے کبھی کوئی بات ھی نھیں کی ھوتی۔
سکول والے بھی اب ہفتے کے چھ دن رزلٹ سناتے ھیں اور ھر والدیں کو بتایا جاتا ھے کہ ان کا بچہ اور دوسرے دن پہلے دن والے بچوں کو چھٹی دے دی جاتی ھے اور دوسرے بچے فرسٹ اور تیسے دن تیسرے بچے فرسٹ اور پوری کلاس کے بچے فرسٹ پوزیشن لے کے پاس واہ جی واہ بلے بلے زندہ باد جی آپکا بچہ فرسٹ آیا ھے اور بھاری فیسیں اور مزید کتابوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ھے بچوں پر، اوران بچوں کے پلے ککھ بھی نھیں ھوتا صرف کتابوں کا بزنس ھے اور ککھ نھیں۔
کچھ سکول نو دس سبجیکٹس کے ساتھ ساتھ بچوں کو چھ کلمے اور مختلف مواقع کی دعائیں رٹا دیتے ھیں اور ھم بحثیت مسلمان بہت خوش ھوتے ھیں کہ جس سکول میں دعائیں اور کلمے سکھائے جاتے ھیں بہت اعلیٰ تعلیم حاصل کر رھا ھے ان کا بچہ!!!!
خدا را بچوں پر کتابوں کا بوجھ لاد کر ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو دفن نا ھونے دیں۔ خدا را ارباب اختیار تک بات پہنچائیں !!
بے جا کتابوں کا بزنس بند کرائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں