زندگی ذرا ٹھہرو

عطیہ ربانی کے ناول “زندگی ذرا ٹھہرو!“ سے اقتباس

عطیہ ربانی کے ناول
“زندگی ذرا ٹھہرو!“ سے اقتباس

وہ پولیس کو بتاتی رہی کہ اس نے کیا کیا ہے مگر — پولیس نے فورا مجھے ایمبولینس سے ہسپتال پہنچا دیا- میں کئی دن تک اس کا منتظر رہا مگر میں جانتا تھاکہ وہ نہیں آئے گی اور وہ نہیں آئی، کبھی نہیں آئی-“
نائل ڈیلافوس کی آنکھیں آج بھی اس کے ذکر سے بھیگ جاتی ہیں- نجویٰ اس کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ محبت تو تھی- یا شاید آج بھی ہے- ایک مکمل اور بھرپور شخصیت کے مالک اس کے پاپا ایک نامکمل اور ادھوری محبت کے ادھڑے ہوئے رشتے کو آج بھی پیوند لگانا چاہتے تھے- ہر لمحہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنے والے کی آنکھیں ہر وقت نم رہتی تھیں یہ آج پہلی بار دیکھا تھا کہ وہ ان کی چمک نہیں بلکہ آنکھوں میں چبھی ان کرچیوں کے ذخم ہیں جو آج بھی ہرے ہیں، اپنے خوابوں سے دستبردار ہوئے تو سنجیدگی میں خود کو چھپا لیا- ہجر کی چادر اوڑھ کر خود کو ذمہ داریوں میں قید کر لیا-

وہ الماری کے پٹ کھولے کھڑی تھی- حیرت کی بات تھی کہ وہ الماری کا وہ حصہ کھولے کھڑی تھی جس پر ہمیشہ قفل لگا رہتا- نجویٰ کچھ جھجک کر آگے بڑھی تو فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بلا لیا- الماری کے اندر کیا تھا بچپن سے اسے تجسس تو ہوتا تھا مگر آج اس کے اندر کی دنیا دیکھ کر وہ حیران رہ گئی- فاطمہ نے اپنی ہی ایک دنیا بسا رکھی تھی-
شیلف کے بالکل بیچ میں فاطمہ کی غالباً شادی کی تصویر تھی کیونکہ سفید لباس اوسر سر پر عربی زیورات سجے تھے، ساتھ کوئی انجان شخص تھا- مگر دونوں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی- دونوں اطراف نجوٰی کے بچپن کی مڑی تڑی تصاویر اسی انجان شخص کے ساتھ تھیں- ساری شیلف پر جگہ جگہ پھول اور کوئی پھٹے ہوئے بوسیدہ کپڑے کا ٹکڑا، تصاویر گو کہ فریم میں تھیں مگر حالت خستہ ان پر بیتی داستان بیان کر رہی تھی-
“یہ تمہارے ابی ہیں- یہ ہماری شادی کی تصویر ہے اور یہ — یہ دیکھو یہاں یہ تم ان کی گود میں کتنی خوش لگ رہی ہو- بس یہ چند تصاویر ہی میرا کل اثاثہ ہیں جو دنیا بھر کے دھکے کھانے کے باوجود میرے اباء کی جیب میں رہ گئیں- تمہارے ابی جانے اب کہاں ہیں، ہماری زندگی میں نہیں ہیں مگر میری دنیا میں وہ آج بھی ایسے ہی موجود ہیں جیسے اس وقت تھے جب مہاجرین کو ٹرکوں میں سامان کی طرح لاد رہے تھے اور وہ ہم دونوں کو سنبھالتے سنبھالتے خود کہیں پیچھے رہ گئے-“
نجویٰ دیکھ رہی تھی کہ فاطمہ کی آنکھوں میں اپنے کھوئے ہوئے شریک حیات کا ذکر کرتے وہی چمک ہے، ہونٹ ایسے ہی مسکرانے لگے ہیں جیسے اس شادی کی تصویر میں- اس کی ماں کو نائل سے انسیت نہیں ہے وہ آج بھی اپنے کھوئے ہوئے رشتے کی راہ دیکھ رہی تھی-
فاطمہ کا دل آج بھی نجویٰ کے ابی کے لیے تھا- نجویٰ پہلی بار اپنے سگے باپ کی تصویر دیکھ رہی تھی- جانے کیسا احساس تھا دونوں ماں بیٹی کی آنکھیں نم ہو گئیں- نجویٰ کی ناک بھی اور مسکراہٹ بھی اپنے ابی جیسی تھی- یہ اس نے آج پہلی بار دیکھا تھا-
نجویٰ نے دھیرے سے کہا-
آپ کے لیے محبت بہت کٹھن رہی ہوگی دل پر بوجھ کی مانند—“
“ایک پاکستانی ساتھ پڑھتی تھی, یاسمین محمود جو کبھی کبھار اپنی لکھی نظمیں سنایا کرتی تھی- ایک نظم ابھی بھی یاد ہے سنو!“
محبتیں بوجھ تو نہیں ہوتیں
نہ ان پر کچھ اختیار ہوتا ہے
نہ ان کا کوئی موسم
لیکن آگہی کا دکھ
یا پھر شائد
کچھ کھو دینے کا احساس
امر بیل کی طرح کچھ
اس طرح پھیل جاتا ہے
کہ جدائیوں کا موسم
دیوانگی کا موسم بن جاتا ہے
وصل کے لمحے پاس نہ رہیں
تو کچھ بھی پاس نہیں رہتا
نہ نیند نہ چین نہ قرار

اپنا تبصرہ لکھیں