گرفتاری سے چند لمحے قبل الجزیرہ سے عمران خان کی بات چیت | اردوپبلشر

گرفتاری سے چند لمحے قبل الجزیرہ سے عمران خان کی بات چیت

الجزیر ٹی وی نے سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی گرفتاری سے چند لمحے قبل بات چیت کی، جسےاپنی رپورٹ میں قلم بند کیا ہے۔ الجزیرہ نے  اپنی رپورٹ میں کہا  کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک مقامی عدالت نے بدعنوانی کے الزامات میں تین سال قید کی سزا سنائی ہے جس کے بعد انہیں جعل جانا پڑا۔ اس سزا میں خان کو پانچ سال کے لیے سیاست سے بے دخل کر دیا ہ گیا ہے جس سے ان کے سیاسی مستقبل کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

کرکٹر سے سیاستدان بننے والے 70 سالہ شخص پر 140 ملین پاکستانی روپے کے منافع کی خاطر غیر قانونی طور پر سرکاری تحائف فروخت کرنے کا الزام ہے ۔ خان نےان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے یہ تحائف قانونی طور پر توشہ خانہ سے خریدے تھے –ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ خان کا منصفانہ ٹرائل نہیں کیا گیا اور یہ کیس سیاسی مخالفت کا شاخسانہ اور بدلہ ہے۔

الجزیرہ سے اپنی گرفتاری سے قبل بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات سے قبل کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نظریے کو کبھی محدود اور گرفتار نہیں کر سکتے۔ اگر آپ انتخابی سروے دیکھیں تو پی ٹی آئی کی مقبولیت 70 فیصد ہے۔ اتنی مقبولیت کسی جماعت کو نہیں ملی۔ تو یہ پاگل پن ہے، کیا ہو رہا ہے؟ کیا اس ملک میں قانون اور آئین کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہمارے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کے منافی سلوک کیاجا رہا ہے ۔
پی ٹی آئی کے ایک لیڈر اور خان کی قانونی ٹیم کے ایک رکن بابر اعوان نے کہا کہ یہ عدالت کا مضحکہ خیز اور شرمناک فیصلہ ہے۔

بابر اعوان نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ عمران خان کا منصفانہ ٹرائل نہیں کیا گیا، جو ملک کے آئین کے مطابق ہر شہری کا حق ہے۔
الجزیر نے اپنی رپورٹ میں اس اہم سوال کہ کیا خان اب بھی سیاست میں آ سکتا ہے؟ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: اس گرفتاری سے خان کے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی تمام امیدیں ختم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔

جرم کا مرتکب ہونے والا کوئی بھی شخص پاکستان میں الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا جاتا ہے، اور امکان ہے کہ پارلیمان اپنی مدت پوری کرنے سے عین قبل اگلے دو ہفتوں میں تحلیل ہو جائے گی۔
پاکستان میں عام انتخابات نومبر کے وسط تک ہونے والے ہیں، لیکن قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ہفتے کے روز ملک کی تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے اجراء کے بعد انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے، جس کے لیے پاکستانی قانون کے تحت حلقہ بندیوں کی از سر نو ترتیب ضروری ہے۔

مزید کہنا تھا کہ  کہ اگر عمران خان کی اپیل ناکام ہو جاتی ہے تو یہ خان کو صرف پانچ سال بعد سیاست میں واپس آنے کی اجازت ہوگی۔ تاہم یہ کیس ان 150کیسز میں سے ایک ہے جن کا خان کو عدالتوں میں سامنا ہے، جس میں کرپشن اور اقدام قتل کےالزامات شامل ہیں۔خان نے کہا کہ ان پر لگائے گئے مقدمات انہیں الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے ہیں۔

اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عمران خان اتنا مقبول کیوں ہے؟ اس سلسلے میں الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ
خان کو موجودہ سیاسی شخصیات میں ایک نئے چہرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور کرپشن سے پاک سیاست کرنے کے ان کے وعدے نے نوجوان ووٹروں کو پرانے سیاسی نظام سے مایوس کر کے اپنی طرف راغب کیا۔

خان 2018 میں عوامی حمایت ، انسداد بدعنوانی کے منشور اور طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے وزیر اعظم بنے۔ خان کے قدامت پسند اسلام کی جانب رحجان اور مغرب مخالف خصوصا امریکہ مخالف بیان بازی کے اثرات نے بااثر مذہبی قدامت پسندوں کو ان کی طرف جھکنے پر مجبور کردیا۔

عمران خان کی انسان دوستی اور رفاہ عامہ کے کاموں نے بھی ان کی نیک نام اور اچھی شہرت میں اضافہ کیا۔ انہوں نے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھی، جو کہ لاہور اور پشاور میں ایسے کینسر سینٹر ہیں جو زیادہ تر مریضوں کو کینسر کا مفت علاج مہیا کرتے ہیں۔

ان کے دور حکومت میں پاکستان نے جنوبی ایشیا میں کووڈ- 19کے خلاف بہترین حکمت عملی اپنائی اور کورونہ کی سب سے کم کیسز ریکارڈ کیے گئے ۔ خان حکومت کےغربت کے خاتمے کے پروگرام نے وبائی امراض کی وجہ سے آنے والی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد کی۔جس کو عالمی فورمز پر بھی سراہا گیا۔
خان کو گزشتہ سال اپریل میں ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا جب ان کے اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے کچھ اراکین اسمبلی نے ان کو چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ عمران خان الزام لگاتے ہیں  کہ ان کی حکومت کو طاقتور فوج نے گرایا تھا۔ فوج ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

ان کی حکومت گرائے جانے کے بعد خان کی مقبولیت اس وقت بڑھ گئی جب انہوں نے رجیم چینج آپریشن کو امریکی حکم کی تعمیل قرار دیا ور وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو گئے – ان کی شعلہ بیان اور متاثر کن ، متحرک تقریروں اور بیانات نے ہزاروں حامیوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔

نومبر 2022 میں ایک ریلی میں ان کی ٹانگ میں گولی لگنے کے بعد ان کی حمایت کو مزید تقویت ملی۔ خان بعد میں ملٹری چیف کو ان کے قتل کی سازش کا ذمہ دار قرار دینے لگا۔ گو کہ اس کے ثبوت کسی معتبر فورم پر پیش نہیں کیے گئے۔

عمراں خان نے 1996 میں سیاست کے میدان میں اترے اور پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی اور اپنی پلے بوائے امیج کو چھوڑ دیا۔ وہ ایک جازب نظر اور کرشماتی سیاست دان کے طور پر ابھرے جو بالآخر دو پہلے سے چلے آرہے خاندانوں کا تختہ الٹنے میں کامیاب رہے جنہوں نے کئی دہائیوں سے پاکستان پر اقتدار حاصل کر رکھا تھا۔

خان نے اپنے آپ کو ایک ایسے سیاست دان کے طور پر ڈھالا جو ملک میں دیرینہ کرپشن سے نمٹ سکتا تھا اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے پختہ منصوبوں کا وعدہ کیا تھا۔

سیاست سے قبل عمران خان نے ایک انتہائی کامیاب کرکٹ کیریئر گزارا جس میں انہوں نے پاکستان کو 1992 کے ورلڈ کپ میں فتح دلائی اور کرکٹ کی بادشاہت کا تاج پہلی دفعہ پاکستان کے سر پر سجایا۔

اپنا تبصرہ لکھیں