بھارت کا مذاکرات شروع کرنے پر پاکستان کو مایوس کن جواب

بھارت کا مذاکرات شروع کرنے پر پاکستان کو مایوس کن جواب

بھارت نے  ایک بار پھر  اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ضروری ہے  دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے ہمسائے  کے ساتھ مذاکرات  کے لیے آمادگی ظاہر کی۔

بھارت کا حالیہ موقف اس کے روایتی بیانیے کی ترجمانی کرتا ہے  کہ اس نے اس سال کے شروع میں بھی اظہار کیا تھا جب وزیراعظم  شہباز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔

 وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں ایک اقتصادی سربراہی اجلاس میں کہا کہ پاکستان “ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ پڑوسی سنجیدہ معاملات پر بات کرنے کے لیے سنجیدہ ہو… کیونکہ جنگ اب کوئی آپشن نہیں رہی”۔ انہوں نے بھارت کا نام لیے بغیر یہ کہا لیکن ان کی مراد پڑوسی ملک بھارت ہی تھا۔

جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، بھارتی  وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، “ہم نے پاکستانی وزیر اعظم کے تبصروں سے متعلق رپورٹس دیکھی ہیں… اس معاملے پر ہندوستان کا واضح اور مستقل موقف سب کو معلوم ہے۔ ہم پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ نارمل ہمسائیگی کے تعلقات چاہتے ہیں۔ اس کے لیے دہشت اور دشمنی سے پاک ماحول ناگزیر ہے‘‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ کوئی نیا موقف نہیں ہے۔ “ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں اور میں آج اسے دوبارہ دہراؤں گا۔”

اپنی تقریر میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ 75 سالوں میں تین جنگیں لڑی ہیں جس کے نتیجے میں معاشی بدحالی اور وسائل کی کمی ہے۔ کیا یہی طریقہ ہے جسے ہم اپناتے ہیں یا معاشی مسابقت رکھتے ہیں

انہوں نے یہ بھی اظہار کیا کہ یہ “پڑوسیکو سمجھنا ہوگا کہ ہم اس وقت تک نارمل پڑوسی نہیں بن سکتے جب تک کہ غلط فہمیوں کو دور نہیں کیا جاتا، جب تک کہ ہمارے سنگین مسائل کو پرامن اور بامعنی بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیا جاتا۔

جنوری میں شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ تاہم ان کے دفتر نے بعد میں واضح کیا کہ اس طرح کی بات چیت جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے 5 اگست 2019 کے فیصلے سے دستبرداری کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔

بھارت کا جواب تھا کہ وقت مناسب نہیں ہے کیونکہ ایک سازگار ماحول ہونا چاہیے جس میں دہشت، دشمنی یا تشدد نہ ہو۔

5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی حیثیت سے متعلق اعلان کے جواب میں پاکستان نے ہندوستانی ہائی کمشنر کو ملک بدر کرنے اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد سے سفارتی تعلقات میں تنزلی ہوئی ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اس سال کے شروع میں گوا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا ایک غیر معمولی دورہ کیا۔ تاہم، وزارتی سربراہی اجلاس ہندوستانی اور پاکستانی وزراء کے درمیان زبانی تبادلے کے زیر سایہ رہا۔

بھارتی اخبار کے مطابق اس بات کا بہت زیادہ امکان نہیں تھا کہ شہباز شریف کی بھارت کو پیشکش سنجیدہ تھی، خاص طور پر چونکہ وہ اس ماہ نگراں کابینہ کو حکومت کی باگ ڈور سونپنے والے ہیں۔ پاکستان میں نگراں حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 60 سے 90 دن کے اندر انتخابات ہونے ہیں لیکن قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں