جیک فروٹ

جیک فروٹ Jackfruit (کٹھل) بنگلہ دیش کا قومی پھل

جیک فروٹ Jackfruit/کٹھل (اردو Urdu)
بنگلہ دیش کا قومی پھل
درختوں پر اُگنے والا دنیا کا سب سے بڑا پھل ہے
ایسا پھل جس نے سری لنکا کو بھوک سے بچایا
پچھلے سال انڈیا نے 2 کروڑ ڈالر کے جیک فروٹ ایکسپورٹ کیے۔ جس کی مانگ ہر سال بڑھ رہی ہے۔ یہ شہتوت خاندان کا درخت ہے۔

سنہ 1970 کے عشرے میں جب سری لنکا شدید خشک سالی کا شکار تھا تو اس خاندان کا گزارا مٹی کے برتن میں ابالے ہوئے جیک فروٹ پر ہوتا تھا جس پر مٹھی بھر پِسا ہوا کھوپرا یا نارییل ڈال لیا جاتا تھا۔

نشاستے (کاربو ہائیڈریٹ) سے بھرپور یہ خوراک اور اس میں شامل قدرتی چربی اس کسان گھرانے کے افراد کو اتنی توانائی فراہم کر دیتی تھی جس کی بدولت یہ تمام لوگ اپنی خشک زمین پر رات دن محنت کرنے کے قابل ہو جاتے تھے۔

اور آج دنیا کی ایک بڑی کپمنی سٹاربکس Starbucks اسی جیک فروٹ کو روٹی میں لپیٹ کر فروخت کر رہی ہے اور پیزا ہٹ PizzaHut والے اسی جیک فروٹ کو پیزا کی ٹاپِنگ میں استعمال کر رہے ہیں۔

اب تو جیک فروٹ اتنا مقبول ہوتا جا رہا ہے کہ لندن سے شائع ہونے والے شام کے روزنامہ ایونِنگ سٹینڈرڈ کے بقول اگر آپ ’کِمچی، کیل اور گوبھی کو ملا کر‘ صحت مندانہ کھانہ بنانا چاہتے ہیں تو یہ ساری چیزیں آپ کو صرف ایک چیز میں مل سکتی ہیں اور وہ ہے جیک فروٹ۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’پِنٹریسٹ Pinterest‘ نے 2017 میں اسے سال کا ’سب سے مقبول کھانا‘ قرار دیا تھا اور حال ہی میں روزنامہ گارڈیئن نے اس کے گوشت جیسے ریشوں کی بدولت جیک فروٹ کو ’وِیگن سینسیشن‘ کا لقب دیا ہے یعنی یہ سبزی خوروں (vegetarians) کے لیے بہترین خوراک ہے۔ سبزی خوروں کا مٹن

تاہم جہاں تک میری والدہ کا تعلق ہے تو انھیں تو اپنی بڑی بہن کے ہاتھ کے بنائے ہوئے کئی قسم کے کھانے یاد ہیں جن سب میں کسی نہ کسی شکل میں جیک فروٹ موجود ہوتا تھا۔ خاص طور پر انھیں ’کری کوس‘ بہت پسند ہے جس میں جیک فروٹ کو ناریل کے دودھ میں پکا کر گاڑھا شوربہ بنایا جاتا ہے۔ کری کوس بنانے کے لیے میری خالہ ہمیشہ کچے جیک فروٹ توڑ کر لایا کرتی تھیں۔

اور پھر عشروں بعد سنہ 2000 کی دہائی میں جیک فروٹ کا وہی درخت دیکھ کر میرا جی للچانے لگتا جس سے میری خالہ کچا جیک فروٹ توڑا کرتی تھیں۔
جیک فروٹ کا لیسدار چھلکا (جسے سنہالا زبان میں کوہولا کہتے ہیں) اتار کر اندر سے انڈے کی زردی کے رنگ کا گُودا نکالا کرتی اور سارا گُودا چاٹ جاتی تھی۔

جیک فروٹ وہ سادا پھل ہے جسے سری لنکا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ اس پھل نے تاریخ میں کئی مرتبہ اس جزیرے کے مکینوں کو بھوک سے بچایا ہے۔

مجھے پکے جیک فروٹ کی تیز بو بہت اچھی لگتی تھی۔ مغربی ممالک میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ انھیں یہ “بدبو’ لگتی ہے لیکن میں اور سری لنکا، انڈیا اور ملائیشیا کے درمیانی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگ جب بھی پکے ہوئے جیک فروٹ کی بو سونگھتے ہیں تو ہمارا دل ’باغ باغ ہو جاتا ہے۔‘

جہاں تک درختوں پر اُگنے والے پھلوں کا تعلق ہے، جیک فروٹ دنیا کا سب سے بڑا پھل ہے۔ اس کی جِلد کھُردری ہوتی ہے اور جوں جوں یہ پکتا ہے اس کا رنگ سبز سے زرد ہوتا جاتا ہے۔

ہم کچا جیک فروٹ کھانے میں ڈالتے ہیں اور پکے ہوئے جیک فروٹ کو اسی طرح کھاتے ہیں جیسے ہم آم یا سیب جیسے پھل کھاتے ہیں۔ اگرچہ مغرب میں اسے اب گوشت کے ایسے متبادل کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے جس کے لیے آپ کو جانوروں کو ہلاک نہیں کرنا پڑتا، لیکن سری لنکن لوگ اس سادا پھل کی صدیوں سے قدر کرتے آئے ہیں کیونکہ یہی وہ پھل ہے جس نے اس جزیرے کو کئی مرتبہ فاقہ کشی سے بچایا ہے۔
سری لنکا میں جیک فروٹ کو “باتھا گاسا’ یعنی چاول کا درخت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ بنیادہ طور پر چاول خور ہیں اور نوآبادیاتی دور سے پہلے یہ لوگ فخر سے کہتے تھے کہ ان کے ہاں پانی کے ذخیرے اور آبپاشی کا نظام اتنا زبردست ہے کہ مون سون کی بارشوں سے حاصل ہونے والے پانی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے جس سے چاول کے کھیتوں کو سیراب کر کے بہت اچھی فصل حاصل کی جاتی ہے۔

لیکن جب برطانوی فوجوں نے سنہ 1815 سے یہاں قبضہ کرنا شروع کر دیا تو انھوں نے کسانوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کر کے نہ صرف ان کے لیے چاول اگانا مشکل کر دیا بلکہ زر مبادلہ میں اضافے کی غرض سے کسانوں کو چائے، ربڑ اور دارچینی اگانے پر لگا دیا۔

سنہ 1915 میں سری لنکا کی تحریکِ آزادی کے کارکن آرتھر وی دیاس کو رہا کر دیا گیا، جنھیں برطانیہ نے شورش میں مبینہ منفی کردار کے شبہے میں سزائے موت سنا دی تھی۔ رہائی کے بعد دیاس نے اپنی زندگی برطانوی راج کے خلاف لڑائی کے لیے وقف کر دی اور انھیں احساس ہو گیا کہ چاول کی پیداوار میں کمی کی جاتی رہی تو جلد ہی سری لنکا کو خوراک کی کمی کا سامنا ہو جائے گا۔
تحریک آزادی میں سری لنکا کے مرکزی علاقوں میں گشت کے دوران دیاس کو جیک فروٹ کے درختوں کی تباہی خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ اور پھر جب انھیں معلوم ہوا کہ پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے یورپ بھر کو خوراک کی خوفناک قلت کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا تو دیاس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ پورے سری لنکا میں کوئی ایسا بندوبست کریں گے کہ ان کے ملک کو خوراک کی کمی کا مسئلہ نہ ہو اور پورا سری لنکا خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہو جائے۔

سری لنکا کے تاریخ دان ڈامِتھ اماراسنگھے کہتے ہیں کہ ’کوئی اکیلا شخص چاول کے ایک کھیت کے لیے پانی کا ٹینک نہیں تعمیر کر سکتا، لیکن آرتھر دیاس کا خیال تھا کہ وہ ملک بھر میں جیک فروٹ کے درخت اگائیں گے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ پورے ملک میں چاول کاشت کر کے وہ سری لنکا سے بھوک کا خاتمہ کر دے گا۔’

اپنے خواب کی تکمیل کے لیے دیاس نے منصوبہ بنایا کہ وہ ملک بھر میں جیک فروٹ کے دس لاکھ درخت لگائیں گے۔ نئے نئے پودے لگانے کی ماہر کی حیثیت سے، انھوں نے ملائیشیا سے جیک فروٹ کے بیچ درآمد کرنا شروع کر دیے اور ملک کے اندر جہاں سے بھی اچھے بیج ملتے، انھوں نے ان کی دیکھ بھال شروع کر دی۔

وہ گاؤں گاؤں جاتے اور یہ بیچ تقسیم کرتے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں بیج بذریعہ ڈاک بھیج دیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیاس کی اس انوکھی مہم کی بدولت ملک بھر میں لوگوں نے صحت مند بیج استعمال کرنا شروع کر دیے اور دیاس کو ’کوس ماما‘ یا ’انکل جیک‘ کا لقب دے دیا۔

آج دیاس کو سری لنکا میں ایک قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے، اور ان کے بارے میں مجھے بھی پہلی مرتبہ سکول کی نصابی کتابوں سے معلوم ہوا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب سنہ 1940 کی دہائی میں بنگال اور ویتنام جیسے ہمسایہ ممالک خوفناک قحط کا شکار تھے تو یہ دیاس کی جیک فروٹ لگانے کی مہم کا نتیجہ تھا کہ سری لنکا میں لوگ بھوک سے نہیں مرے۔

مسٹر اماراسنگھے بتاتے ہیں کہ سنہ 1970 کے عشرے میں بھی سری لنکا میں جیک فروٹ بھوک سے بچاؤ کا پھل سمجھا جاتا تھا۔ میری والدہ کی یادوں میں اسی دور کا تذکرہ ملتا ہے جب وہ چھوٹی تھیں۔

ستّر کی دہائی میں افراط زر، خشک سالی اور خوراک میں کمی کی وجہ سے سری لنکا تباہی کے کنارے پہنچ گیا تھا۔ سنہ 1974 میں روزنامہ نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون میں سری لنکا کی وزیر اعظم سریمواؤ بندرانائیکے کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ بدترین معاشی حالات نے ’ہمارا گلا گھونٹ دیا ہے اور ہم زندہ رہنے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔‘

لیکن دیاس کی مہم کی بدولت سنہ 1900 کے عشرے کے ابتدائی برسوں تک سری لنکا کے بیشتر گھروں میں جیک فروٹ کے درختوں نے پھل دینا شروع کر دیا تھا۔ اماراسنگھے کے بقول یہ جیک فروٹ کے درخت ہی تھے جنھوں نے ستّر کے عشرے سے بہت پہلے ہی پھل دینا شروع کر دیا تھا اور ان بحرانی برسوں میں سری لنکا کے لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچا لیا۔

مسٹر اماراسنگھے کا کہنا تھا کہ ’میری نانی کا تعلق ایک کھاتے پیتے خاندان سے تھا، لیکن حکومت نے انھیں بھی ہفتے میں صرف دو کلو گرام چاول خریدنے کی اجازت دی تھی۔ اُن برسوں میں یہ جیک فروٹ ہی تھا جس نے انھیں زندہ رکھا۔‘

حال ہی میں اماراسنگھے کا مزید کہنا تھا کہ جب کووِڈ 19 پر قابو پانے کے لیے حکومت نے ایک ماہ کا کرفیو لگایا تو تب بھی اکثر لوگوں نے جیک فروٹ پر ہی انحصار کیا۔ وبا کے ابتدائی ہفتوں میں گاؤں میں اکثر لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا اور حکومت کے بہبودی پروگرام کو دور دراز پہاڑی علاقوں تک پہنچنے میں ہفتے بلکہ مہینے لگ گئے۔ ایسے میں اکثر لوگ خوراک اور مالی مدد تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور وہ ابلے ہوئے جیک فروٹ پر ہی گزارا کرتے رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے میری والدہ کا خاندان ستّر کی دہائی میں کیا کرتا تھا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیک فروٹ محض فاقہ کشی کے دور کی خوراک نہیں ہے۔ جیک فروٹ سے سری لنکا کے لوگوں کی محبت اور اس کی قدر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب لوگ جیک فروٹ سے مزے مزے کے کھانے اور میٹھے پکوان بھی بنانے لگے ہیں اور ہم اپنے متنوع کھانوں میں کسی نہ کسی شکل میں جیک فروٹ استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔

مثلاً چھوٹے چھوٹے جیک فروٹ، جن میں بیج نہیں ہوتے، ان سے ایک مزیدار شوربہ بنایا جاتا ہے جسے ہم پولوس امبُولا کہتے ہیں۔ یہ شوربہ بنانا بہت محنت طلب کام ہے کیونکہ اس میں چھوٹے چھوٹے جیک فروٹ کو مٹی کی ہانڈی میں لکڑی کے چولہے پر کم از کم چھ گھنٹے پکانا پڑتا ہے۔

جوں جوں وقت گزرتا ہے جیک فروٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ناریل کے مصالحے دار میٹھے پانی میں آہستہ آہستہ ابلتے رہتے ہیں اور ہانڈی سے نکلنے والی لونگ، دارچینی، خشک املی اور دوسرے مصالحوں کی خوشبو آپ کی بھوک بڑھاتی رہتی ہے۔
اور اگر آپ جیک فروٹ کو اس وقت درخت سے اتارتے ہیں جب یہ پک چکا ہوتا ہے تو یہ لیسدار ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں اس پر نمک لگا کر کھائیں تو اس کا ذائقہ زیادہ اچھا ہو جاتا ہے۔ ہمارے گھروں میں جیک فروٹ کے بیج بھی ضائع نہیں جاتے کیونکہ ہم انھیں بھی ابال کر کھا لیتے ہیں۔ آپ ان ابلے ہوئے بیجوں کو فرائی کیے ہوئے چاولوں اور ناریل کے ریشوں کے ساتھ ملا کر گہرے رنگ کا شوربہ بھی بنا سکتے ہیں جسے “کوس اٹا کالو پول ملاوا’ کہا جاتا ہے۔

میری والدہ کو کوئلوں پر بھُنے ہوئے بیج بہت پسند ہیں۔ میری پسندیدہ چیز وہی ہے جو میرے والد کو بھی بہت پسند ہے۔ اسے کوس اٹا اگالا کہتے ہیں اور اسے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ بھُنے ہوئے بیجوں کو پیس کر پسے ہوئے ناریل میں مکس کر کے شکر اور تھوڑی سے مرچیں ڈال کر گولے بنا لیتے ہیں جو کرکرے ہوتے ہیں۔ میں جب بھی گھر جاتی ہوں تو میرے والد خاص طور پر میرے لیے شام کی چائے کے ساتھ ایسے ہی گولے بناتے ہیں۔

جیک فروٹ کی خصوصیات اتنی ہیں کہ یہ باورچی خانے سے باہر بھی بہت کام کی چیز ہے۔ فارغ وقت میں مقامی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے دوائیں بنانے کی ماہر دیویانی ویلیتھراگے کے بقول جتنے زیادہ استعمال جیک فروٹ کے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے پودے یا درخت کے ہوں۔

دیویانی بتاتی ہیں کہ جیک فروٹ کے درخت کی لکڑی تعمیرات وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے جبکہ اس کے پتے اور پھول بہت سی آیورودیک ادویات میں استعمال ہوتے ہیں جن میں ذیابیطس کی دوا بھی شامل ہے۔ نشاستے سے بھرپور جیک فروٹ میں وٹامن سی بھی ہوتا ہے اور اسے آپ وزن کم کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

دیویانی جیک فروٹ سے کیک بھی بناتی ہیں اور اسے باریک کاٹ کر میٹھے چِپس بھی اسی طرح وزارت زراعت کے زیر اہتمام چلنے والے ہیلا بوجن نامی ریستورانوں میں کوس کوٹو کے نام سے ایک ڈِش بھی پیش کی جاتی ہے۔

یہ ٹھیلوں پر ملنے والا ایک مقبول سنیک ہے اور نشہ اتارنے کے لیے بھی کھایا جاتا ہے۔ ہیلا بوجن کے ٹھیلوں پر ابلے جیک فروٹ سے بنا ہوا ایک کھانا بھی ملتا ہے جو ان لوگوں میں بہت مقبول ہے جو گوشت نہیں کھاتے۔

اگرچہ گھر پر جیک فروٹ سے کھانے بنانے کی روایت پرانی ہے، تاہم اب سری لنکا بھر میں بڑے بڑے ریستورانوں میں بھی جیک فروٹ کے کھانوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔

ایک بڑے ریستوران کے طباخ، وسانتھا راناسنگھے کا کہنا تھا کہ ’ایک دن ہمارے پاس چھوٹے چھوٹے جیک فروٹ بچ گئے۔ میں نے سوچا کیوں نہ ان سے اپنے سبزی خور مہمانوں کے لیے آلو ٹِکی کی قسم کی چیز بنائی جائے۔’

ان کے بقول جلد ہی ان کی ترکیب اتنی مقبول ہو گئی کہ ان کے وہ گاہک جو گوشت نہیں کھاتے وہ جب بھی آتے جیک فروٹ کی ٹکیاں آرڈر کرتے۔

جیک فروٹ کے حوالے سے مختلف ماہرین سے بات کرنے کے بعد میں نے اپنی والدہ کو فون کیا تو انھوں نے مجھے پھر ورغلا لیا کہ میں گاؤں آ کر اپنی خالہ کے ہاتھ کے بنے ہوئے شوربے سے لطف اندوز ہوں۔

گرما گرم چاولوں کے ساتھ لیمن گراس کی خوشبو سے بھرپور کری کوس شوربہ جس میں تازہ مچھلی کا گوشت بھی شامل ہو۔

میں یہاں کولمبو میں اپنے گیس کے چولہے پر اتنا زبردست کری کوس نہیں بنا سکتی جو میری خالہ بناتی ہیں، لیکن میں خالہ کے ہاں تو جا سکتی ہوں۔ اور جب وہاں جاؤں گی تو صاف ظاہر ہے اپنی بیٹی کی محبت میں میرے والد شام کی چائے کے ساتھ کوٹ اٹا اگالا تو ضرور بنائیں گے۔
پاکستان بھی اس کی کاشت کے موزوں ہے اور نرسری سے اس کے پودے مل جاتے ہیں, پتوکی سے تو ضرور مل جائیں گے۔ ضلع قصور اور نارووال میں تو بہت زیادہ درخت ہیں، اندرون سندھ اور کراچی شہر میں بھی موجود ہیں۔
ایک مشہور درخت کوہاٹ کے کسٹم ہاؤس میں بھی ہے جو 1947 میں لگایا گیا تھا اور بھرپور پھل دیتا ہے۔
پھل کا اوسط وزن 10-15 کلو ہوتا ہے اور 45 کلوگرام وزن کا بھی دیکھا گیا ہے۔
Courtesy: BBC Urdu
تحریر: زنارا رتھنائک

اپنا تبصرہ لکھیں