امام بخاری

امام بخاری اور صدر سوئیکارنو

امام بخاری اور صدر سوئیکارنو ۔۔۔رکھ لیتے ہیں

حضرت امام بخاریؒ کا اصل نام محمدبن اسماعیل تھا لیکن تاریخ انھیں امام بخاری کے نام سے یاد کرتی ہے. انہیں اللہ تعالیٰ نے کرشماتی خوبیوں سے مالا مال رکھا

۔بچپن سے ہی انکا حافظہ غیر معمولی تھا ۔ اسے photogenic memory کہا جاتا ہے ۔۔ اپنی اکسٹھ سالہ زندگی میں بلا مبالغہ چھ لاکھ احادیث پر تحقیق کی اور سات ہزار احادیث کو علم حدیث کی سند اور دین و دانش کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ‘صحیح بخاری’ جیسا شہرہ آفاق مجموعہ احادیث مدون کیا
۔ جسے قرآن کریم کے بعد سب سے معتبر دینی منبع ہدایت تصور کیا جاتا ہے ۔۔ انہیں اپنے دور کے امام بے مثال امام احمد بن حنبل کی صحبت بھی میسر رہی۔۔۔۔
امام بخاری کی نظر بچپن میں ہی کمزور ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور وہ بالآخر نابینا ہو گئے ۔۔۔بیوہ والدہ دن رات دعا کرتیں ۔۔۔ صاحب ثروت خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ۔ بہتیرہ علاج معالجہ کروایا گیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ آیک رات خواب میں انکی والدہ کو حضرت ابراھیم خلیل اللہ کی زیارت ہوئی
جنہوں نے ماں کی گود میں نیم دراز بچے کے سر پہ دست شفقت رکھا اور شفا کی بشارت دی اور اگلی صبح امام بخاری کی بینائی بحال ہوگئی ۔۔ یہ کرامت شاید من جانب ایزدی تھی ۔کہ وہ چراغِ اور چاند کی روشنی میں بھی بخوبی لکھ پڑھ سکتے تھے ۔
۔محض چھ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا۔۔ ۔ امام بخاری نے جوانی میں حج کی سعادت حاصل کی اور نبی کریم کے روضہء مبارک سے متصل حجرہ میں دو سال قیام پذیر رہے اور محض اٹھارہ برس کی عمر میں دو کتب تحریر کیں ۔۔۔
امام بخاری نے عمر کا زیادہ حصہ۔۔۔بغداد اور سفر و حضر میں بسر کیا۔۔۔انکے شاگردوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز تھی ۔۔ عمر کے آخری ایام میں نیشاپور (ایران)
میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے ۔۔مگر مقامی علماء کی تعصب نظری سے بیزار ہو کر بخارہ واپس آگئے ۔۔۔ بخارہ کے گورنر کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ امام اس کے بچوں کا اتالیق بننا قبول فرمائیں
اور اشرفیوں کا تھیلا بھی ہمراہ بھجوا دیا۔۔۔جسے امام نے شکریہ کے ساتھ وآپس کردیا۔۔۔امام شہر چھوڑ کر سمر قند کے نواح میں خرتنگ نامی چھوٹے سے گاؤں میں جا آباد ہوئے ۔۔۔کتب بینی۔ تحقیق ۔
خلوت اور عبادت گزاری معمول تھا۔ شب بیدار تھے۔ تین راتوں میں قرآن مکمل کر لیتے۔ کہتے ۔۔ہر ختم قرآن ہر ایک دعا قبول ہوئی ہے۔ ۔اور وہیں وصال فرمایا ۔۔۔
وقت گزرتا گیا ۔۔ تیمور آیا، اس نے آپ کا مقبرہ تعمیر کروایا، تیمور گزر گیا اور اس کے گزرنے کے ساتھ ہی مقبرے کی نگہبانی بھی ختم ہو گئی،
عمارت گری اور آہستہ آہستہ مقامی قبرستان میں گم ہو گئی، روس نے 1868ء میں سمرقند پر قبضہ کر لیا، سمرقند کی تمام عبادت گاہیں، روضے اور مزارات پابندی لگا دی گئی

اور یوں امام بخاریؒ کا مزار گمنامی کی دبیز گرد میں گم ہو گیا۔اور لوگوں کے حافظے سے بھی یہ مقام محو ہو گیا ۔

سوئیکارنو ۔۔ انڈونیشیا کا مقبول ترین حکمران گزرا ہے
۔انہوں نے ملک کو ولندیزی حکمرانوں سے آزادی دلائی اور وہ اسکے بانی صدرِ تھے ۔اس ملک کی موجودہ ترقی میں انکی دور رس پالیسیوں کا گہرا عمل دخل ہے ان سے جڑا ایک دلچسپ واقعہ۔۔سمرقند میں ہمارے گائیڈ نے سنایا۔

روسی صدرِ خروشیف کی خصوصی دعوت پر سوئیکارنو نے 1961 میں روس کا دس روزہ دورہ کرنا تھا۔۔۔
سرد جنگ کے دن تھے ۔۔ ابھرتے ممالک کو اپنے کیمپ کی جانب راغب کرنے کے لیے عالمی طاقتوں میں رسہ کشی جاری تھی۔۔۔

کہتے ہیں کہ دورہ کے اعلان کے ساتھ ہی سوئیکارنو کو خواب میں ایک سے زائد مرتبہ یہ بشارت ہوئی کہ نبی کریم سے منسوب کوئی بزرگ خستہ حال میں انہیں یاد کررہے ہیں ۔۔

۔ انہوں نے علماء کو بلایا اور استفسار کیا کہ روس میں کون سی نیک ارواحِ آسودہ خاک ہیں ۔۔ ایک عالم نے قیاس کیا کہ شاید سمرقند کے نواح میں مدفون امام بخاری کی جانب اشارہ ہے۔
۔صدر سوئیکارنو نے روسی سفیر کے سامنے یہ شرط رکھی کہ روسی صدر سے ملاقات سے قبل وہ امام بخاریؒ کے مزار پر حاضری دیں گے۔
سوویت یونین کے لیے یہ دورہ انتہائی اہم تھا مگر وہ اس وقت تک امام بخاریؒ کے نام سے واقف نہیں تھے
چنانچہ ڈھونڈمچی اور بعد تلاش بسیار روسی اہلکار سمرقند جا پہنچے، امام کا مزار اس وقت انتہائی خستہ حالی اور شکستگی کا شکار تھا۔۔ اور نہ ہی کسی سربراہ مملکت کے دورے کے لائق ۔ شایان شان یا عبادت کے قابلِ، روسی حکومت نے ٹالنے کی بہتیری کوشش کی
لیکن سوئیکارنو کا اصرار قائم رہا

اپنا تبصرہ لکھیں