وڑ گیا

طاہرعدیم صاحب کی نئی غزل بڑھ گیا ” وڑ گیا “

وڑ گیا
کی مقبولیت کا عالم دیکھئے

وڑ گیا دریا کا پانی،،،،،،،،،، اور کنارا وڑ گیا
تھا مجھے جس ایک تنکے کا سہارا ، وڑ گیا

میں نے جب سوچا تھا سب کا فائدہ ہی فائدہ
زندگی میں کس طرف سے پھر خسارا ،، وڑ گیا

اس محبت کی کہانی کا ہوا یوں اختتام
کچھ تمہارا وڑ گیا، اور کچھ ہمارا وڑ گیا

اس نے دیکھا زخم کو جب زخم فوراً بھر گیا
اس نے پوچھا درد کا جب درد سارا،، وڑ گیا

جب بھی سوچا تجھ پہ لکھوں تیرے جیسی ہی غزل
گُنگ تشبیہیں ہوئیں ،،،،،،،،،،،،،، ہر استعارا وڑ گیا

“رنگِ زرد و آہِ سرد و چشمِ نم” یعنی کہ ہے
عشق میں ماں باپ کی آنکھوں کا تارا وڑ گیا

خواب میں “انجینیئر “نے یہ کہا کہ جُز خدا
غیر کو جس نے پکارا وہ بے چارا،، وڑ گیا

تُو نے دیکھا تھا کہ میں خوش ہوں تری سالی کے ساتھ
اے میرے ہم زلف تیرا استخارا ،،،،،،،،،، ،،، وڑ گیا

یعنی وہ قاتل حسِینہ،،،،،،، پھر جلائے گی بدن
پھر غرارے میں ہے یعنی اک شرارا وڑ گیا

آج بھی میں ،،،،،اپنے بچے کو نہیں بہلا سکا
چند سانسیں ہی بھری تھیں اور غبارا وڑ گیا

لاکھ روکا تھا اسے طاہر وہ پھر بھی رو پڑا
اور چہرے پر لگایا تھا جو گارا ،،،، وڑ گیا

_طاہرعدیم.

اپنا تبصرہ لکھیں