دسمبرشاعری

“دسمبرشاعری” دسمبر کے لئے منتخب اردو اشعار

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے

دسمبر2023 کے لئے منتخب اردو اشعار

بے رونق راستے، سرد ہوائیں اور تیری یاد..
دسمبر تیرے آنے کا پتا دیتی ہیں…

دسمبر میں تیرے انتظار کی وہ پہلی بارش
میرے جیون میں تیرے پیار کی وه پہلی بارش
پوچھتے ھیں اشک اٹک کر میری پلکوں پہ
کہاں ھے تیرا پیار اور وہ پہلی بارش

دندھ کے بادل سرد ہوائیں کیا ہے بات دسمبر کی
محبت کے فسانوں میں الگ ہے ذات دسمبر کی
میری مانو تم صلح کرلوں اب تم نیند کی دیوی سے
ہے رونے سے کہا کٹتی یہ لمبی رات دسمبر کی

کیوں ہر بات پہ کوستے ہیں لوگ دسمبر کو
کیا دسمبر نے کہا تھا محبت کر لو؟؟

ٹھٹھرتی ہوئی شبِ اور وہ بھی طویل تر
ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر

ہر طرف سے ہو رہی ہے تجھ پہ شاعری
اے دسمبر بتا تیری خاصیت ہے کیا

سمجھاؤ انہیں نہ ٹھکرائیں مجھے
میں دسمبر نہیں جو پھر لوٹ اؤں گا

نشہ چائے کا مہینہ دسمبر کا
ٹھوکریں زمانے کی اور غم صرف تیرا

اُسے کہو میری تڑپ کچھ کم کر دے
تیری یادیں عروج پر اور دسمبر کا ساتواں دن

شال پہنائے گا کون تمہیں دسمبر میں
بارش میں کبھی بھیگو گی تو یاد آوں گا

سوکھے پتوں میں بھی آنے لگی مُشکِ عنبر
تیری بکھری ہوئی یادیں اور یہ ذرد دسمبر

بنا کر چائے اور کھا کر انڈوں کی زردیاں
کاٹی ہے ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں

بڑے بے رونق گزر رہے ہیں دسمبر کے دن
حالانکہ تیری دی ہوئی شال بھی اوڑی میں نے

وہ مجھ کو سونپ گیا فرقتیں دسمبر میں
درختِ جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے

الوداع اے ڈوبتے سورج کی افسردہ کِرن”

“اے دسمبر کی ٹھرٹھراتی آخری شام الوداع

پچھلے برس تٌم ساتھ تھے میرے اور دسمبر تھا
مہکے ہٌوے دن رات تھے میرے اور دسمبر تھا

دسمبر آ گیا ہے اب قَسّم سے یاد مت آنا
پٌرانی چوٹ اکثر سردیوں میں درّد دیتی ہے

بہت سے غم دسمبر میں دسمبر کے نہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا مگر رویا دسمبر میں

اس بار دسمبر ٹھیک سے آمد نہیں ہوا
نہ وہ سرد شامیں ہوٕیں، نہ موسم شاعرانہ ہٌوا

وعدہ کر کے نہیں لوٹے یہ موسم لوٹ آیا ہے
ابھی تک تٌم نہیں آۓ دسمبر لوٹ آیا ہے

اُسے کہنا
دسمبر کے گزرنے سے ذرا پہلے
محبّت کی کہانی کو ذرا تکمیل دے جانا

دسمبر اب کے جاؤ تو، مجھے بھی ساتھ لے جانا
مجھے بھی شام ہونا ہے، مجھے بھی گمنام ہونا ہے

ان دنوں تعلق تھوڑا مظبوط رکھنا
سنہ ہے دسمبر کے بچھڑے کبھی نہیں ملتے

اُداس لمحے, زرد پتے, اور دہندلے سے چہرے
بڑا ہی قہر ڈھاتا ہے یہ یادوں کا دسمبر

مٌجھ میں اٌتارو کٌچھ مٌحبّت کی حرارت
رکھ دو دسمبر کو جون کر کے

یہی اِک بات دسمبر کی خاص لگتی ہے
ہوائیں سرد ہوتی ہیں چاۓ کی پیاس لگتی ہے

تمہارے بعد گزریں گے بھلا کیسے ہمارے دن
نومبر سے بچیں گے تو دسمبر مار ڈالے گا

کیا گزرتی, کیا بتائیں, چلو اسکو دکھاتے ہیں
دسمبر کو دسمبر میں دسمبر سے ملاتے ہیں

برف لا کر ہتھیلیوں پر رکھ مجھ کو مہندی لگا دسمبر کی
ایک دو شعر کچھ نہیں جاناں آج غزلیں سنا دسمبر کی

غلط فہمی کی برفیلی ہوائیں جب چلتی ہیں
محبت کے دریچوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے

شوقین ہو جس کو پڑهنے کے تم
دسمبر کی وه اداس شاعری ہوں میں

جاتے ہوئے دسمبر کی کھڑکی سے
میں نے ہنستا ہوا جنوری دیکھا

اف یہ دسمبر کی آخری گھڑیاں
میرے پہلو میں کاش تم ہوتے

لوٹ آؤ کہ… ابھی بھی کچھ نہیں بِگڑا
ابھی بھی ایک رات باقی ہے دسمبر کی!!

اس کے سرد لہجے کے مٌقابل
یقین جانو دسمبر کٌچھ بھی نہیں

دسمبر کی مثال دوں یا تمہاری…؟
کوئی پوچھ بیٹھا ہے بدلنا کس کو کہتے ہیں

یہ سال بھی اداسیاں دے کر چلا گیا
تم سے ملے بغیر دسمبر چلا گیا

کیسے رٌخصت کروں دسمبر تٌجھ کو
کہ تیرے واپس آنے میں سال لگتا ہے

ہمیں اس سرد موسم میں تیری یادیں ستاتی ہیں
تمھیں احساس ہونے تک دسمبر بیت جاۓ گا

دسمبر کی اس یخ ںستگی میں بھی
یادیں اس کی منجمد کیوں نہیں ہوتی!

تمہارے ہجر میں جب بھی کیلنڈر پر نگاہ ڈالی
دسمبر کے مہینے کو ستم گر ہی پڑھا میں نے

مٌجھے موسم سے کیا لینا نومبر ہو دسمبر ہو
میرے سب رنگ تٌجھ سے ہیں بہاروں کے خزاٶں کے

ہلکی ہلکی سی سرد ہوا، ہلکا ہلکا سا درد دل
انداز اچھا ہے اے دسمبر تیرے آنے کا

سٌنہری شام ڈھلتے ساۓ
ٹھنڈادسمبراور گرم چاۓ

اسے کہنا خزإیں آ گٸ ہیں اب تو لوٹ آۓ
اٌسے کہنا دسمبر کی ہوإیں یاد کرتی ہیں

ہر طرف ہو رہی ہے تٌجھ پر شاعری
اے دسمبر تو ہی بتا تیری خاصیت کیا ہے

آخری چند دِن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گٌزرتے ہیں

اپنا تبصرہ لکھیں