حماس کی حمایت

مسئلہ فلسطین اور مسلم امہ کی تگ و دو

مسئلہ فلسطین اور مسلم امہ کی تگ و دو

تحریر: عطیہ ربانی، بیلجیئم

سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ! کرۂ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونسی تعمیر کی گئی؟آپﷺ نے فرمایا: مسجدالحرام، پھرعرض کیا دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا:مسجدالاقصیٰ ،انہوں نے سوال کیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا:چالیس سال۔

(صحیح بخاری:۳۳۶۶،مسلم:۵۲۰)

مسجد اقصی کے کئی نام ہیں جن میں سے سب سے ذیادہ مشہور مسجد اقصیٰ، بیت المقدس اور ایلیا ہیں- اس کا کل احاطہ چالیس ہزار ایک سو چالیس مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے- یہ محض ایک گنبد نہیں ہے بلکہ پوری پہاڑی ہی بیت المقدس کہلاتی ہے-
فلسطین کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی پرانی ہے- جالوت اسی سرزمین سے تھا جسے طالوت کی فوج کے ایک نوجوان نے شکست دی اور وہ بعد ازاں فوج کا سپہ سالار بنا اور بادشاہ وقت کی بیٹی سے شادی ہوئی- یہ نوجوان حضرت داؤد علیہ سلام تھے- جو نہایت غربت میں گزر بسر کرتے رہے، بکریاں چرایا کرتے اور ان سے جو اجرت حاصل ہوتی اسی پر گزارہ ہوتا- مگر جب طالوت نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی لوہے کی ٹوپی پہننے والے جالوت کو قتل کرے گا اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کرے گا- اس وقت حضرت داؤد علیہ سلام کی عمر بہت کم تھی مگر جذبہ بہت ذیادہ، اسی لیے کامیاب ہوئے اور پھر طالوت کے بعد بادشاہت کے منصب پر فائز ہوئے-
وہ دیوار گریہ جسے دیکھ کر, چوم کر یہودی آہ و زاری کرتے اور اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں وہ ہیکل سلیمانی کی باقیات، (جانے ہے بھی یا نہیں) مگر اس ہیکل سلیمانی کی تعمیر داؤد علیہ سلام نے شروع کروائی تھی اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان علیہ سلام نے اسے مکمل کروایا- اسی وجہ سے اسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے- جہاں تابوت سکینہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانی کے طور پر اترا تھا وہ محفوظ کیا گیا تھا-
مگر حضرت سلیمان علیہ سلام کے بعد یہودیوں میں وہی نافرمانیاں جاگنے لگیں- یہاں تک کہ حضرت دانیال علیہ سلام کے دور میں بیت المقدس کا یہ حال تھا کہ وہاں جوئے اور سٹے کا بازار گرم تھا- امیر کبیر تاجروں کو لایا جاتا، ان کی خدمات کی جاتیں اور غریب مسکین لوگوں کا داخلہ سختی سے منع تھا-
اللہ تعالیٰ نے سورہ العمران کی آیات میں فرمایا؛
“اگر اہل کتاب (بنی اسرائیل) ایمان لے آتے تویہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ مومن ہیں اور اکثر فاسق ہیں۔ یہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، مگر یہ کہ زبان درازی کر لیں۔ اور اگر یہ تم سے جنگ کے لیے نکلیں گے تو تمھیں پیٹھ دکھائیں گے۔ پھر ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ نکلے گا۔ یہ جہاں کہیں بھی ہیں، ان پر ذلت کی مار ہے، مگر اللہ کے ذمہ کے تحت یا لوگوں کے کسی معاہدہ کے تحت۔ یہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں اور یہ جسارت انھوں نے اس سبب سے کی کہ انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور یہ حد سے بڑھ جانے والے تھے۔“
العمران ١١٠، ١١٢
یہودیوں کو دو بڑے عذاب سے ڈرایا گیا تھا- ان کی کتابوں میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے- ایک زمانے میں جب فلسطین پر مشرکین کی حکومت تھی تو مصر سے بچ نکلنے والے یہودیو سے وعدہ لیا گیا تھا کہ وہ دوبارہ بت پرستی اور برائیوں میں نہ پڑیں گے- اس کے بدلے انہیں دعا کا ثمر طالوت کی شکل میں دیا اور بعد ازاں، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ سلام جیسے طاقتور نبی اور بادشاہ عطا فرمائے مگر یہ مکرو فریب، سازشوں سے باز نہ آنے والے تھے- اپنی نافرمانیوں کے سبب پھر سے بھٹکا دئیے گئے- فارس کے بخت نصر نے ایسا حملہ کیا کہ یرو شلم تباہ و برباد کر ڈالا- ہیکل سلیمانی جلا کر راکھ کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ تابوت سکینہ بھی یہیں جل گیا تھا اور کچھ حوالوں کے مطابق بخت نصر ساتھ لے گیا تھا- لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کا قتل ہوا اور ستر ہزار کی تعداد، جن میں تاریخ کے مطابق ایک نبی
حضرت دانیال علیہ سلام بھی تھے، ان کو قیدی بنا لیا گیا-
بخت نصر کے بعد سائرس اعظم کے دور میں انہیں یروشلم جانے کی اجازت ملی تھی- مگر اس بار بھی یہ اسے سنبھال نہ پائے
بد اعمالیوں کی بدولت یرو شلم کھو دینے کے بعد حضرت عیسی علیہ سلام کے دور میں سازشی یہودیوں نے خود رومیوں کو فلسطین پر حملے کی دعوت دی تھی-مگر ذیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بھی سازشیں شروع کر دیں اور رومیوں کے فلسطین پر حملے کی نصف صدی میں ہی ان پر رومی بادشاہ طیلیوس کا قہر ٹوٹا، سوالاکھ قتل ہوئے اور ستائیس ہزار کو غلامی سہنا پڑی-
اور نافرمانیوں کے سبب رومن بادشاہ طیلیوس کے دور میں دوسرے بڑے عذآب سے گزرنا پڑا- اس کے بعد قرون وسطی میں یہودی سب سے نچلے طبقے کے طور پر دیکھے جاتے- ان کی رہائش شہر کے سب سے گندی اور بوسیدہ عمارات میں ہوتی- یہاں تک کہ قرون وسطی میں ہر بیماری کی جڑ بھی انہیں ہی قرار دیا جاتا-
ہٹلر کے دور میں جو کچھ ہوا اور اس کے بعد کیسے انہیں فلسطین میں آباد کروانے کی کوششیں ہوئیں- یہ سب کے سامنے ہے-
نیتن یاہو نے کچھ روز قبل جو تقریر کی اور اس میں یروشلم اور اسرائیل سے متعلق تاریخ بیان کی وہ ایسے ہی ہے جیسے انہوں نے اپنی دینی کتب میں تحریف کی ہوئی ہے-
اس وقت مسئلہ فلسطین پر نظر یہی آرہا ہے کہ تمام مسلمان ممالک، حماس کی طرفداری کریں یا نہیں مگر اسرائیل کے خلاف سخت پالیسی اپنائے ہوئے ہیں- گو کہ امریکہ اور برطانیہ نے کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور ہر طرح سے امداد کی بھی جا رہی ہے- مگر ترکی، سعودی عریبیہ، پاکستان، بحرین، ایران، لبنان، یمن، اردن، کویت، عمارات سمیت سبھی فلسطین کے معاملے میں ڈٹ کر کھڑے تو ہوگئے ہیں مگر اسرائیل کی بمباری مسلسل جاری ہے- اور امریکی سیکریٹری انٹونی جے بلنکن کی مختلف ملاقاتوں کے باوجود بھی نیتن یاہو ایک ضدی بچے کی طرح جنگ بندی پر آمادہ نہیں-
غزہ پر حماس کے ٹھکانوں کے نام پر چودہ ہزار سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں- دس ہزار نہتے شہریوں اور چار ہزار آٹھ سو بچوں سمیت کئی لاشیں بچھائی جا چکی ہیں- اس وقت یہ حال ہے کہ اس جارحیت کے خلاف جنوبی افریقہ نے بھی اپنے سفیر اسرائیل سے واپس بلوا لیئے ہیں- سیکریٹری بلنکن شاید اس امید پر جنوبی کوریا کے دورے پر روانہ ہوئے کہ یہاں تو انہیں حمایت پورا یقین تھا کیونکہ چین اور روس نے بھی کھل کر جنگ بندی کی حمایت کردی، اس کے علاوہ فرانس کے صدر امانوؤل میکرون نے نہ صرف غزہ کے لیئے امداد کا اعلان کیا بلکہ واضح الفاظ میں “سیز فائر“ کا مطالبہ بھی کیا- ایسی صورت میں جنوبی کوریا کا دورہ امید کا باعث ہو سکتا تھا مگر وہاں بھی عوام فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور حکومت اپنے عوام کے خلاف کیسے جائے گی-
اب بات یہاں یہ ہے کہ اس وقت مسلم امہ کا کیا کردار ہے- مسلم اکثریت والے تقریبا 57 ممالک ہیں- جن میں 22 عرب ممالک ہیں- متحدہ عرب امارات اب مریخ پر جانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا ہے- بہت سے عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں- اور اسی پر تکیہ کیے بیٹھے رہے- گو اسرائیل کے معاملہ پر پہلے بھی عربوں اور اسرائیلیوں کی جنگیں ہو چکی ہیں 1948 اور اس کے بعد 1967 میں عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں- اور ان میں عرب ممالک کو شکست کھانا پڑی- مگر شکست کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹیکنالوجی اور فوجی تربیت کو بہترین سطح پر لے جایا جاتا- اپنی شکست سے سیکھ کر خود کی عسکری طاقت کو بڑھایا جاتا، بہترین اکانومی سٹریجیز اپنائی جاتیں کہ کوئی کسی مسلمان ملک کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا مگر یہاں تاریخ سے کیا سبق سیکھا گیا- اس وقت دیکھا جائے تو اسرائیل آئیسولیشن میں ہے- امریکہ اور برطانیہ کھل کر جارحیت کا ساتھ تو دے رہے ہیں دوسری طرف امریکی سیکریٹری بلنکن جنگ بندی پر بھی بات کر رہے ہیں اور مختلف ممالک کی حمایت حآصل کرنے کی تگ و دو میں بھی لگے ہیں- اور مسلمان ممالک اقوام متحدہ کی قرار داد پر تکیہ کیے بیٹھے- وہ اقوام متحدہ جس کے کشمیر پر فیصلے کو بھارت تک سے نہ منوایا جا سکا- لاڈلا باس اسرائیل کس کھاتے میں لکھتا ہے-
اس وقت دکھ کی بات یہ ہے کہ اتنے مسلمان ممالک مل کر بھی اتنے طاقتور نہیں کہ ایک ملک کی جارحیت کا سامنا کرنا تو دور کی بات اسے روک ہی سکیں- عربوں کی دولت کی مثالیں سنتے سنتے کان پاک گئے مگر اس دولت سے کیا حاصل کیا- پاکستان جیسی ایٹمی قوت کے تو کیا ہی کہنے، کرپشن اور نا اہل حکمرانوں کو گود میں بٹھا رکھا ہے- یورپی ملکوں میں جزیرے خریدے جا رہے ہیں- ملک کی اکانومی کا برا حصہ عسکری قوت پر خرچ ہوتا ہے- اور قوم سرحدوں کی حفاظت پر تعینات جوانوں سے بہت محبت بھی کرتی ہے مگر جرنیلوں کا کیا— جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کر گئے- ان حکمرانوں کا کی— ?ا جو خود تو جہادی نہ پیدا کر سکے قوم کو بھوک سے مار رہے ہیں- کبھی سردی کا موسم خوبصورت تھا اب سردی میں لاک ڈاؤن ہوتا ہے- ایسے مسلمان ممالک جہاد کریں گے جو عام آدمی کے منہ کا نوالہ تک چھین کر امریکہ، برطانیہ میں فلیٹ خریدتے ہیں- اور ان نا اہلوں کے اسی کالے دھن سے وہ ہتھیار بنا کر نہتے مسلمانوں پر برساتے ہیں-
اسلام میں سب سے بڑا جہاد تو نفس کا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب تک حکمران کے ہاتھون میں تلواریں تھیں، ان کی اولادیں تلوار زنی کو ہی اپنا مشغلہ سمجھتی تھیں تو مسلم امہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں پاتا تھا- آج کے مسلمان نے اسلام بس اتنا ہی یاد رکھا ہے کہ اس مذہب میں چار شادیاں جائز ہیں- دولت ہو تو پھر آدھے پونے کپڑوں میں ناچتی تھرکتی اداکاراؤں یا ماڈلز کو بیاہ لائیں- پھر امید سے بیٹھ جائیں کہ ان کے یہاں مجاہد پیدا ہوں گے-

اپنا تبصرہ لکھیں