نیم

نیم درختوں کا بادشاہ

نیم
درختوں کا بادشاہ
نباتاتی نام – Azadirachta indica
خاندان – Maliaceae

نیم کا ذکر تقریباً (4000) چار ہزار سال سے انسانی تاریخ میں ملتا ہے۔ ویدک سنسکرت
میں اسے نِمبا( Nimba) کہا گیا ، یہی لفظ اردو میں پہلے نمب اور پھر نیم ہو گیا۔ پنجابی میں یہ مزید مختصر ہو کر نِم کہلایا۔ انگریزوں نے اس کو indian lilac اور Margosa tree کا نام دیا۔

کہا جاتا ہے کہ جب انگریزوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں فتح کے بعد دارلحکومت دہلی کو ازسرِنو بسانا شروع کیا تو نیم کے درخت کو خصوصی ہدایات دے کر لگوایا گیا۔ آج بھی پاکستان ، بھارت ، سری لنکا اور برما میں نیم کو خاص طور پر اگانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
شکل و ساخت- (Morphology)
نیم ایک تیزی سے اگنے والا درخت ہے۔ یہ قد میں 15–20 میٹر کی اونچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ جاڑے کے خشک دنوں کے علاوہ سارا سال گہرے سبز پتوں سے لدا رہتا ہے۔ اس کی شاخیں کافی چوڑی اور پھیلی ہوٸی ہوتی ہیں۔ذیلی شاخیں مل کر ایک گھنی چھتری بناتی ہیں، اس چھتری کا قطر 20-25 میٹر تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ درخت اپنے گہرے ساۓ کے لیے خاصا مشہور ہے۔نیم کےسائے میں دوسرے درختوں کی چھاؤں کی نسبت دو تین ڈگری درجہ حرارت کم رہتا ہے۔ اسی ٹھنڈے، گھنے ساۓ اور اس کی کڑواہٹ نے پنجابی لوک بولیوں میں اس کو ایک خاص مقام عطاء کیا ہے جو باقی کسی درخت حصے میں نہیں آیا۔
اس کے پتے آمنے سامنے ایک جوڑے کی (pinnate) شکل میں ڈنڈی (stalk) پر سجے ہوتے ہیں ۔ یہ ڈنڈی 20 سے 40 سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہے ۔ اس پر 20 سے 30 درمیانے درجے کے گہرے سبز رنگ کے پتے موجود ہوتے ہیں جو کہ عموماً 3-8 سینٹی میٹر تک لمبے ہوتے ہیں۔ پیٹیولس( Petioles) مختصر ہوتے ہیں۔
پھولوں کی ترتیب (Inflorescence)۔
رنگ میں سفید اور خوشبودار پھول شاخوں کے بغلی گوشوں سے نکلے ایک گچھے ( Auxiliary panicles) پر اگتے ہیں جو 25 سینٹی میٹر تک لمبے ہوتے ہیں۔
اس پر 250 سے 300 تک پھول ہوتے ہیں۔ ایک انفرادی پھول 5–6 ملی میٹر لمبا اور 8–11 ملی میٹر چوڑا ہوتا ہے۔ انفرادی درخت میں پھول پروٹااینڈرس (Protandrous- ایسا پھول جس میں نر , مادہ سے پہلے مچیور ہو جاتا ہے) اور Bisexual ( جس میں مادہ اور اور نر دونوں موجود ہوں) ہوتے ہیں-

نیم 3-5 سال میں پھل دینے لگتا ہے، جبکہ 10 سال کی عمر میں یہ 50 کلو تک پھل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیم کی عمر عموماً 200 سال تک ہو سکتی ہے۔ پھل کو نِمکولی یا نِبولی بھی کہا جاتا ہے ، نمکولی کی سطح ہموار (بغیر روئیوں اور بالوں کے ) ، رنگ زردی مائل گہرا سبز اور شکل میں گول یا بیضوی ہوتی ہے۔ پکنے پر 14-28 ملی میٹر تک لمبی اور 10-15 ملی میٹر تک گولاٸی میں ہوتی ہے۔
پھل کی جلد (exocarp) پتلی ہوتی ہے اور کڑواہٹ ملا میٹھا گودا (mesocarp) زرد، سفید اور ریشہ دار ہوتا ہے۔ میسوکارپ 3-5 ملی میٹر موٹا ہوتا ہے۔ پھل کے سفید ، سخت اندرونی خول (endocarp ) میں ایک یا شاذ و نادر ہی دو ، تین ، لمبے بیج ہوتے ہیں جو بھورے رنگ کا سیڈ کوٹ رکھتے ہیں۔
استعمالات (Uses)
نیم ایک کثیر المقاصد درخت ہے۔ لوگ اس کے پھلوں کو کچا یا پکا کر کھاتے ہیں، اور بعض اوقات سبزی کے طور پر جوان ٹہنیوں اور پھولوں کو کھایا بھی جاتا ہے۔ نیم کی چھال ، بیجوں کا عرق اور نیم کے پتے صدیوں سے انسانوں اور جانوروں کے علاج کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ نیم کو عام طور پر خشکی کے علاج کے لیے شیمپو میں اور صابن یا کریم میں جلد کی حالتوں جیسے مہاسوں ، چنبل وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں کچھ ٹوتھ پیسٹ اور ماؤتھ واشز کا ایک جزو بھی ہے ،
ٹہنیوں کو دیہی علاقوں میں براہ راست دانت صاف(مسواک) کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم کے پتے ذیابیطس کے روایتی علاج کے طور پر طویل عرصے سے استعمال ہورہے ہیں ، اور کچھ ایسے طبی ثبوت بھی ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ یہ بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

بیج Azadirachtin کا ایک اہم ذریعہ ہیں ، جو بیجوں میں موجود ایک لیمونوائڈ مرکب (triterpenoid) ہے ۔ یہ کسی حد تک پتے اور دوسرے ٹشوز میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ کیڑوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے استمعال ہوتا ہے ۔ یہ ان کیڑوں کے فیڈنگ سائیکل کو متاثر کرتا ہے اور اس طرح سے ان کی افزائش ، میٹامورفوسس اور بڑھنے کے عمل میں خلل پڑتا ہے۔ نیم کے خام حصے اور نیم کا نچوڑ مکئی ، چاول اور پھلیوں جیسے ذخیرہ کیے گئے بیجوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تاکہ ان بیجوں کی کیڑوں سے حفاظت کی جاسکے۔
ہندوستان میں نیم کی اہیمت اتنی زیادہ ہے کہ یہاں بعض علاقوں میں ہندو اس کی بھگوان کی طرح پوجا کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں