یہودی رہنما

کیا آپ کو یہودیت اور صہیونیت میں فرق معلوم ہے

﴿تحریر کا پورا مطالعہ کھلے ذہنیت سے کرے﴾

اس تحریر کا مقصد صرف دو نظریات سمجھانا ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں ۔

( مسلمانوں کو خیر نا یہودیوں سے ہے اور نا صیہونیت سے اور نا ہمارے منافق مسلم حکمرانوں سے)

قرآن مجید کے مطابق یہود و نصاری کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔

مگر ان دونوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تجارت یا معاہدات ہو سکتے ہیں ۔ جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیت المقدس کا معاہدہ اس طرح اور بھی تاریخ میں تجارتی تعلقات وغیرہ ملتے ہیں .
مسئلہ فلسطین کے ضمن میں آپ نے یہودیت اور صہیونیت جیسی اصطلاحات بہت سنی ہوں گی، کیا آپ جانتے ہیں یہودی اور صہیونی میں فرق ہے؟

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں یہودی (jew) اور صہیونی (zionist) میں کیا فرق ہے؟

صہیونیت

صہیونیت لفظ صہیون (zion) سے ماخوذ ہے، جو بائبل کی سرزمین اسرائیل کا حوالہ ہے۔ یہ لفظ یہودی ریاست کے قیام کی جدوجہد کیلئے ایک سیاسی تحریک کے عنوان کے طور پر پہلی مرتبہ 19 ویں صدی کے آخر میں سامنے آیا۔

یہودی ریاست کے قیام کی سیاسی جدوجہد کیلئے بطور استعارہ صہیونیت لفظ کا استعمال سب سے پہلے آسٹریا کے ایک یہودی صحافی اور مصنف تھیوڈور ہرزل نے 1896 میں اپنے ایک پمفلٹ بنام “یہودیوں کی ریاست” میں کیا۔

تھیوڈور ہرزل کو بابائے صہیونیت اور بابائے اسرائیل کا مقام حاصل ہے۔ ہرزل انیسویں صدی کے اواخر میں یہودیوں کی الگ ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کرنے والے سب سے متحرک یہودی رہنما تھے۔

1897 میں ہرزل کی کوششوں سے سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی صہیونی کانگریس منعقد ہوئی جس میں پہلی بار دنیا کے سامنے صہیونیت کا مقصد آشکار کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس کی منزل فلسطین میں یہودیوں کے لیے الگ ریاست قائم کرنا ہے۔

صہیونیت کا اطلاق
آج لفظ صہیونیت کی معنویت میں وسعت آگئی ہے اور اب صرف یہودی مذہب رکھنے والے ہی صہیونی نہیں کہلاتے بلکہ دوسرے مذاہب کی پیروی کرنے والے وہ لوگ بھی صہیونی کہلائے جاسکتے ہیں جو اسرائیل کے وجود کی حمایت اور یہودیوں کے الگ وطن کے حق کا دفاع کرتے ہیں۔

سادہ لفظوں میں یہودی اور صہیونی کا فرق بیان کیا جائے تو یہی ہے کہ یہودی صرف وہ ہے جو تورات کو مانتا ہو اور یہودیت کا پیروکار ہو، جبکہ صہیونی ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو یہودیوں کی الگ ریاست کے حق کا وکیل اور حامی ہو، خواہ وہ مذہبا یہودی ہو یا نہ ہو۔

اس بات کو آسانی سے سمجھانے کیلئے ایک مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ ہندوستان میں ہم نے ہندوازم اور ہندوتوا دیکھا ہے۔ ہندو ازم ایک مذہبی اصول اور فلسفہ ہے جسے بہت سے ہندوستانی مانتے ہیں۔ یہ ماننے والے نہ جنگجو ہوتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے مخالف ہوتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں میں اسی کے ساتھ ہندوتوا کا لقب بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ اب ہندوتوا ایک سیاسی نعرہ ہے۔ یہ اقلیتوں کے خلاف نازی ازم جیسی تحریک ہے۔ اس کا استعمال صرف سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کیا جاتاہے۔ جو لوگ اس ہندوتوا کے خلاف ہوتے ہیں وہ بھی ہندو ازم کے مخالف نہیں ہوتے۔ بالکل یہی حال صہیونیوں کا ہے۔ صہیونیت مشرقی یورپ کے ان سیاسی کرتب بازوں کی دین ہے جو اصل یہودیت سے بہت دور ہیں۔ اصلی یہودی انہیں کافر مانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا فلسطین یا یوں کہہ لیجئے کہ موجودہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے.
اسرائیل، یہودی اور صہیونی کا فرق ؟

یہودیت کا بحیثیت مذہب آغاز تاریخی حوالوں کی رو سے ہلنستی دور ( 31 ق م۔ 323 ق م) میں بنی اسرائیل میں ملتا ہے۔ مذہبی ادب بنی اسرائیلیوں کی کہانی 1500 سال ق م بتلاتا ہے۔ یہودیت توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک دین ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں یہودی وہ لوگ کہلاتے ہیں جو حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے اور ان پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ یہودیت میں کئی فقہ شامل ہیں، سب اس بات پر متفق ہیں کہ دین کی بنیاد بیشک نبی موسٰی نے رکھی، مگر دین کا دار و مدار تورات اور تلمود کے مطالعہ پر ہے، نہ کہ کسی ایک شخصیت کی پیروی کرنے پر۔

یہودیت کی بنیاد چار ارکان پر ہے :
عقیدۂ توحید :یہودی توحید کے قائل ہیں اگرچہ بعض پیغمبروں کو اور بعض اوقات خود کو ہی خدا بیٹا کہلوا کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن بہرحال یہ توحید کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مسیح موعود کی آمد :ان کے عقیدے کے مطابق آخر زمانے میں ایک نجات دہندہ آئے گا جو ان کے لیے ایک علیحدہ ریاست مملکت قائم کر کے ان کو ہزاروں سال کی ذلت و خواری سے انہیں نجات دلائے گا۔

شعب اللہ المختار : یعنی یہ یہودی اللہ تعالیٰ کی منتخب اور پسندیدہ قوم ہیں۔

الولاءللشعب الیھودی :یعنی یہودی کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا۔

دنیا بھر کے بیشتر لوگ اسرائیلیت ،یہودیت اور صیہونیت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں اور اکثر ذرائع ابلاغ پر بھی ان الفاظ کا درست انداز میں استعمال نہیں ہوتا۔
جہاں صیہونیت کا لفظ ہونا چاہیے وہاں اسرائیلیت کہتے ہیں اور جہاں یہودیت کہا جانا چاہیے وہاں صیہونیت کا لفظ استعمال کرلیتے ہیں۔
یہ تینوں الفاظ ایک نہیں ہیں،تینوں کے معنی ایک دوسرے سے بہت اختلاف رکھتے ہیں۔
اسرائیلی کے معنی پر بات کی جائے تو قرآن مجید میں اس بات کا ذکر ہے کہ پیغمبر خدا حضرت یعقوبؑ کا لقب اسرائیل ہے اور یہ لقب انہیں اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہوا ہے۔
یعقوبؑ کے 12 بیٹے تھے جن میں ایک حضرت یوسفؑ ہیں،یعقوبؑ کے بیٹے اور ان کی آل و اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے(یعنی بنی یعقوب) اور اسرائیلی لفظ یعقوبؑ کے لقب اسرائیل سے منسوب۔
اسرائیلی لفظ ایک قوم کی نشاندہی کرتا ہے جو حضرت یعقوبؑ کی آل و اولاد ہوتی ہے یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہودی اسرائیلی نہیں ہوتا۔
فلسطین کی سرزمین پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست کا بھی نام اسرائیل رکھا گیا ہے۔

دنیا کےنقشے پر صہیونی ریاست :
یہودی لفظ کے معنی کی بات کی جائے تو یہ ایک مذہبی تسمیت ہے جو یہودیت کے پیروکار ہوتے ہیں،یہودی حضرت موسیؑ کو مانتے ہیں اور ان کی مقدس کتاب تورات کہلاتی ہے،یہودیوں کے نزدیک جس شخص کی والدہ یہودی ہے وہ شخص بھی یہودی ہے ،البتہ دور حاضر میں یہودیت سے وابستہ ہونا صرف والدہ کے یہودیت سے وابستگی پر منحصر نہیں رہا،یہودی اب اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ جس شخص کی والدہ یہودی اور والدہ یہودی نہیں وہ شخص بھی یہودی ہے۔

ذرائع ابلاغ پر ایک عام
(مگر بڑی) غلطی یہ ہے کہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے والے صیہونیوں کو یہودی کہا جاتا ہے،کیونکہ صیہونیوں کے آنے سے قبل) ہی یہودی فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے ،یہ یہودی بھی فلسطین کی نسبت فلسطینی کہلاتے ہیں اور یہ صیہونی ریاست کے قیام کے شدید مخالف ہیں اور اس ریاست کو ناجائز ریاست تصور کرتے ہیں۔

اب صیہونی لفظ کے معنی کی بات کی جائے تو ہر وہ شخص جو بین الاقوامی صیہونی تحریک کا حصہ ہے وہ صیہونی کہلاتا ہے،صیہونیت ایک عالمی تحریک اور تنظیم بر جس کی بنیاد 1896ء میں رکھی گئی تھی،اس تحریک کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ سرزمین فلسطین پر یہودی ریاست کا قیام، اس تنظیم سے وابستہ تمام افراد اور اسی تنظیم کے آئیڈیالوجی پر یقین کرنے والا ہر شخص صیہونی کہلاتا ہے ،مگر ہم سب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر یہودی صیہونی نہیں ہوتا اور ہر صیہونی بھی یہودی نہیں ہوتا۔

یہودیوں پر دو ہزار سال تک جلا وطنی اور ظلم و ستم کے جواب میں صیہونیت انیسویں صدی کے اواخر میں وسطی اور مشرقی یورپ میں ایک یہودی قومی احیاء کی تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اس کے بعد جلد ہی، اس کے زیادہ تر رہنماؤں نے اس تحریک کا مقصد مطلوبہ ریاست فلسطین اور بعد میں سلطنت عثمانیہ کے زیر حکومت علاقوں میں قائم کرنے سے وابستہ کر لیا۔ امریکی صحافی تھیوڈور ہرتذل کو صہیونی تحریک کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ 1896 ء کی اپنی کتاب ’دیر یودنستات‘ (یہودی ریاست) میں انہوں نے بیسویں صدی میں مستقبل کی خودمختار یہودی ریاست کا تصور دیا۔ صہیونی تحریک کے مقاصد یہودیوں کے لیے الگ وطن کا قیام، اس کے استحکام اور دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر اس میں آباد کرنا تھا۔

اس وقت اسرائیل خود مختار ملک کی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ جہاں پہ صیہونیت پسند پارٹی ”لیکوڈ“ اقتدار میں ہے اور یہودیت پسند اسرائیلیوں کے لیے جگہ تنگ ہے۔ لیکن یہودیت پسند اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی حکومت کو فلسطین پر ظلم کے خلاف سخت مخالفت دے رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہودیت ایک مذہب جبکہ صیہونیت ایک تحریک ہے جسے نوم چومسکی سمیت بڑے یہودی دانشور یہودیت کی مخالفت سمجھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں