طبی ٹیسٹ

30 سال کی عمر کے بعد یہ طبی ٹیسٹ لازمی کروانے چاہیے

کہا جاتا ہے کہ احتیاط علاج سے کہیں بہتر ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے اس پر عمل نہیں کرتے. طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد اپ کو اپنے جسم کا خصوصی خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے.
اپنے جسم کا خیال رکھ کر اس پر توجہ دے کر ہم بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو عمر بڑھنے اور ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیں لاحق ہو سکتی ہیں طرز زندگی کی وجہ سے آ نے والی بیماریوں میں جیسا کہ دل کی بیماری، شوگر، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے.
کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اور اپنے جسم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہم بہت سی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں. ماضی میں دل کی بیماریوں کا خطرہ 50 سال کی عمر کے لگ بھگ رہتا تھا مگر اب یہ خطرہ 30 سال کی عمر کے افراد میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے.
ایسے میں بہتر ہے کہ بیمار ہونے کی صورت میں ہسپتالوں کا رخ کرنے کی بجائے چند بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہم بروقت اور درست تشخیص سے ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں. اور اس مقصد کے لیے طبی معائنے کی ضرورت ہے ان میں میڈیکل، ٹیسٹ بلڈ ٹیسٹ شامل ہیں
بلڈ پریشر چیک کریں ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت سب سے پہلے بلڈ پریشر چیک کروانا ضروری ہوتا ہے ہائی بلڈ پریشر دل کی بیماریوں یا کے لیے خطرے کا علامت ہے. اسی لیے 30 سال کی عمر کے بعد وقتا فوقتا ہمیں اپنا بلڈ پریشر چیک کرتے رہنا چاہیے. اس سلسلے میں ہم گھر میں ڈیجیٹل بلڈ پریشر مانیٹر رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے.
اس کے بعد خون کا ٹیسٹ اس کے بارے میں بھی یقینا اپ نے سنا ہوگا عموما ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ اپ اپنا سی بی سی کروائیں سی بی سی کا مطلب ہوتا ہے کہ مکمل خون کے خلیوں کی گنتی یہ بہت ہی بہت بہت ہی عام سا ٹیسٹ ہے یہ خون میں موجود خلیوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرتا ہے اس ٹیسٹ سے ہم خون کی کمی اور خون کی کئی بیماریوں جن میں انفیکشن اور کینسر کی بعض اقسام کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے. پاکستان میں خواتین میں اکثر خون کی کمی جیسی بیماری عام ہے خون کی کمی سے خون کے سرخ خلیوں میں ہوموگلوبن کی شرح کم ہو جاتی ہے. جس کی وجہ سے خلیات کو مناسب مقدار میں اکسیجن نہیں ملتی. ڈاکٹر اس ٹیسٹ کو سال میں کم از کم ایک بار کروانے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں.
بلڈ شوگر ٹیسٹ اسے شوگر ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے، خون میں 99 سے کم شوگر کی سطح کو نارمل سمجھا جاتا ہے، اور 125 کے درمیان شوگر کی سطح کو پری شوگر سمجھا جاتا ہے، جبکہ 126 سے اوپر کو شوگر کی بیماری سمجھا جاتا ہے. اگر بلڈ شوگر زیادہ ہو تو ایچ بی اے ون ٹیسٹ کرانا چاہیے اس سے پچھلے تین ماہ کے بلڈ شوگر کی اوسط سطح کا پتہ چل جاتا ہے.
لپڈ پروفائل یہ بھی ایک اہم طبی ٹیسٹ ہوتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا دل کیسے کام کرتا ہے یہ سیرم ٹرائی گلیسرائیڈ اورکیلیسٹرول کی سطح کو چیک کرتا ہے ایچ ڈی ایل ہائی ڈینسٹی لپو پروٹین کیلسٹرول جسم کے لیے بہت ہی اچھا ہے.
ہائی ایچ ڈی ایل کی سطح والے لوگوں میں دل کا دورہ پڑنے فالج اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے یہ کم از کم 60 سے اوپر ہونا چاہیے.
اسی طرح ایل ڈی ایل جو ہے یہ ایک برا کولیسٹرول ہے یہ آپ کی شریانوں میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ بھی سال میں ایک دفعہ لازمی کرانا چاہیے.
ای سی جی اگر دل کی دھڑکن میں اتار چڑھاؤ ہو تو ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ یہ ٹیسٹ کروا لیں اسی جی سے پتہ چل جاتا ہے کہ ایا آپ کا دل ٹھیک سے کام کر رہا ہے کہ نہیں لیور فنکشن ٹیسٹ یہ جگر کے لیے ہوتا ہے، یہ جگر کے فنکشن ٹیسٹ سے آپ جگر کی کارکردگی کے بارے میں جان سکتے ہیں، اس ٹیسٹ کے ذریعے اپ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ اپ کو ہیپاٹائٹس بی ہیپاٹائٹس بی یا فیٹی لیور وغیرہ ہے یا نہیں.
پیشاب کا ٹیسٹ اس کے بعد ایک بہت اہم ٹیسٹ ہے جسے پیشاب کا ٹیسٹ کہتے ہیں آج کل بہت سے لوگ کم مقدار میں پانی پی رہے ہوتے ہیں سفر کے دوران عام طور پر عوام مین بیت الخلاق کا استعمال کیا جاتا ہے. اس طرح کے حالات پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں لہذا پیشاب کی نالی کا انفیکشن معلوم کرنے کے لیے آپ کو پیشاب کا ٹیسٹ کروانا لازمی چاہیے.
اسی طرح سگریٹ نوشی کرنے والوں میں مثانے کا کینسر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس میں پیشاب میں خون آنا مثانے کی کینسر کی علامات میں سے ایک ہے اس ٹیسٹ کے ذریعے پیشاب میں پروٹین شوگر اور خون کی سطح معلوم کی جاتی ہے.

گردے کے فنکشن ٹیسٹ ہیں گردے ہمارے جسم سے فضلہ نکالنے کے لیے کام کرتے ہیں سیرم کریٹینائن ٹیسٹ یہ دیکھنے کے لیے کیا جاتا ہے کے آیا ہمارے گردے اسی طرح یہ ٹیسٹ بھی ہمیں سال میں ایک دفعہ لازمی کرایا جانا چاہیے

اپنا تبصرہ لکھیں