ٹی ٹی پی اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے القاعدہ میں ضم ہونے جا رہی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ایک مانیٹرنگ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) القاعدہ کے ساتھ انضمام کی کوشش کر سکتی ہے تاکہ ایک ایسی امبریلا تنظیم بنائی جائے جو جنوبی ایشیا میں سرگرم تمام عسکریت پسند گروپوں کو پناہ دیتی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا، اقوام متحدہ کے کچھ رکن ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی بہت سے غیر ملکی ملی ٹینٹ گروپوں کو ایک چھتری فراہم کر سکتی ہے ، اس اتحاد کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کی طرف سے انہیں کنٹرول کرنے کے عمل کی مذاحمت کی جائے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ میں پاکستان کی اس شکایت کی تائید کی گئی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔

اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی ایک رکن ریاست نے القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے انضمام کے امکان کو نوٹ کیا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ القاعدہ پاکستان کے اندر بڑھتے ہوئے حملے کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کو رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔
ادھر کابل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ کو مسترد کر دیا جس میں افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

دستاویز کے مطابق افغانستان کے صوبہ کنڑ میں مختلف دہشت گرد گروپوں کے زیر انتظام تربیتی کیمپوں کو کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو بھی استعمال کر رہے ہیں۔

طالبان کی طرف سے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی منقسم گروپوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد کے بعد ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنے علاقے پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہےاقوام متحدہ کے مبصرین نے نوٹ کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی توجہ سرحدی علاقوں میں ہائی ویلیو اہداف اور شہری علاقوں میں نرم اہداف پر مرکوز رہی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ “ٹی ٹی پی کی صلاحیت کا اندازہ اس کے عزائم سے مماثل نہ ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اس لیے کہ اس کا علاقے پر کنٹرول نہیں ہے اور قبائلی علاقوں میں اس کی مقبولیت کا فقدان ہے۔”

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے جون میں رپورٹ کیا کہ طالبان کی حکومت نے پاکستان کے دباؤ میں اس گروپ کو کنٹرول کرنے کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کے بعض عناصر کو سرحدی علاقے سے دور منتقل کر دیا ہے
رکن ممالک نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو بتایا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اگر افغانستان میں اپنے آپریٹنگ بیس کو برقرار رکھتی ہے تو یہ علاقائی خطرہ بن سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی، جس نے 25 جولائی کو سلامتی کونسل میں اپنی رپورٹ پیش کی، اس بات پر روشنی ڈالی کہ اگست 2021 میں افغان طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی کس طرح افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے۔ جنگ زدہ ملک میں کام کرنے کا احاطہ بڑھ رہا ہے

رپورٹ میں کہا گیا کہ “القاعدہ کے اراکین اور اس سے منسلک گروپوں بشمول TTP، اور داعش خراسان کے درمیان فرق بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے، بعض اوقات افراد ایک سے زیادہ گروہوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی طرف متوجہ ہونے کا رجحان ہوتا ہے جو غالب ہیں اور ان کو عروج حاصل ہے۔

دستاویز میں افغانستان کو دہشت گردی کے لیے عالمی اہمیت کی جگہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جہاں تقریباً 20 دہشت گرد گروہ ملک میں کام کر رہے ہیں اور خطوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات اب بھی قریبی اور واضح ہیں۔ زیادہ تر حصے میں القاعدہ “افغانستان میں خفیہ طور پر اس بیانیے کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہے کہ طالبان افغان سرزمین کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنے کے معاہدوں کی تعمیل کرتے ہیں۔

ڈی فیکٹو طالبان حکام کے اعلیٰ عہدے داروں کی سرپرستی میں القاعدہ کے ارکان قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوامی انتظامیہ کے اداروں میں دراندازی کرتے ہیں، جس سے ملک بھر میں منتشر القاعدہ سیلز کی حفاظت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

اس کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کا مرکز 30 سے 60 ارکان پر مشتمل ہے، جب کہ ملک میں القاعدہ کے تمام جنگجوؤں کی تعداد 400 بتائی گئی ہے، جو خاندان کے ارکان کے ساتھ 2000 تک پہنچ گئی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ کے تقریباً 200 جنگجو تھے۔
افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔تاہم افغان طالبان کے بنیادی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعہ کو ٹویٹ کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ درست نہیں ہے۔ القاعدہ کی افغانستان میں کوئی موجودگی نہیں ہے،”

اپنا تبصرہ لکھیں