تمہارے بعد کا تو خیر کیا کہیں
تمہارے ساتھ بھی بہت دکھا ہے دل
فریحہ نقوی
تجھ سے کٹ کر میں بھلا کیسے نمو پاؤں گا
وقت گزرے گا فقط عمر کہاں گزرے گی ….
اِن گُلابوں کی مخبری کی جائے
اِتنی خُوشبو کہاں سے لاتے ھیں
تُم بھی شَاید وھیں سے آئے ھو
اَچھے مُوسم جہاں سے آتے ھیں
جنہیں چن لیا جائے ان پر تبصرے نہیں کرتے
تسلیم کے بعد تصدیق گمراہ کرتی ہے
آئین صرف آزاد اور با اختیار قوموں کیلئے ہوتے ہیں
غلاموں کے لئے بندوق ، فوج اور مذہب ہوتا ہے!!
کامریڈ چی گویرا
مُجھے اُس کی آواز کا مَرہم چاہیئے
اُسے کہو ناں میرا نام پُکارے
آ, تھک کر میرے پاس کبھی بیٹھ تو ہمدم
تو خود کو مسافر مجھے دیوار سمجھ لے
وہ جِسکی اداسی کا مداوا تھا کبھی میں
زہر لگتا ہے اب اُسے، طرزِ کلام میرا
وہ تو پَل بھر نا رہ پاتا تھا ، بغیر میرے
تیسرے شخص تیرے ہُنر کو سلام میرا
جو روشنی نہ رہے گی تو کیا کرو گے تم
تمہارا سایہ تلک ساتھ چھوڑ جائے گا
میرے کردار پے اگر شک ہے آپ کو
تو مجھ سے دور جانے کا پورا حق ہے آپ کو
آج اس نے میری تصویر پرانی مانگی
ہائے کمبخت نے کس وقت جوانی مانگی
اور پھر چھوڑ گیا وہ، جو کہا کرتا تھا
کون بدبخت تجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے!
چُپ کی کثرت سے مر رہے ہیں لوگ
قہقہوں کی بڑی اشد ضرورت ہے۔
دل پریشاں تھا مگر جان تمہاری خاطر
چہرہ شاداب رکھا بال بنائے رکھے
ناصر امروہوی
ایک ہلکی سی چبھن احساس کو گھیرے رہی
گفتگو میں جب تُمھارا ذِکر آیا اِس طرف
― نوشی گیلانی
انسان سب کچھ بھول جاتا ہے
بس اپنی بے قدری نہیں بھولتا
کاسہٕ حِرص کو دٌنیا بِھی نہیں بَھر سکتی…
دِل بَسانا ہو تو____اِک شَخص بہت ہوتا ہے…
تم ساتھ تهے تو اک ترتیب تهی شب و روز میں
تم کیا گئے ، کہ بکهر کے رہ گئی زندگی اپنی
تیرے آنے سے ،کچھ ذرا پہلے
بات تجھ سے ہی کر رہا تھا میں
وقت کا خاص ہونا ضروری نہیں
کسی خاص کے لئے وقت کا ہونا ضروری ہے
خدائے پاک میں تیری رضا پہ راضی ہوں
مگر یہ ماؤں کا جانا سمجھ سے باہر ہے۔🥹
پھر اٹھا لایا ہوں پھینکا ہوا سب کاٹھ کباڑ…
خالی کمرے میں یہ تنہائی بہت گونجتی تھی…
سجاد بلوچ
جس نے تجھے میرے حصے سے چرا لیا
اسے کہنا کسی کا حق نہیں مارا کرتے
میں نے اک راز بتایا اسے سرگوشی میں
میں نے اک روز ترے نام پہ مر جانا ھے
ایک اُمّید بسر کرتے ہوئے عُمر کٹے !
پھر اچانک سے وہ اُمّید ہی مَر جائے تو؟
خود اپنا بار تو کیا سر اٹھا نہیں سکتے
اٹھا کے ہم پہ کوئی آسماں نہ رکھا جائے
― خالد علیم
منتیں ادھوری رہ گئیں
چاہنے والا معزرت کر گیا
تم تو لکھتے رہے میری آنکھوں پہ غزلیں
تم نے کبھی پوچھا نہیں کے روتے کیوں ہو
ہر چند تھیں خموش میرے دل کی دھڑکنیں
دیوار و در کو یاد تیرے سب سخن رھے
تیرے مکان کے اردگرد جو مکین ہو گا
اس کا گھر تو وہاں مہنگا ترین ہو گا۔
حیاتِ درد کو آلودۂ نشاط نہ کر
یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی
― ناصر کاظمی
میں بات کروں تو فتویٰ لگے گا
آپ ہی شروع کیجئے ثواب ہوگا!
ممکن ہے کہ تجھے اس وقت میں نا ملوں
یار جس وقت تجھے_______ساتھ نبھانا آئے
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
-فیض احمد فیض
تماشے یہاں سب عشق ہی نہیں کرتا
اس پیٹ نے بھی دی ہیں رسوائیاں بہت
کتنی دلکش ہو تم، کتنا دلجو ہوں میں
!کیا ستم ہے کے ہَم لوگ مر جا ئیں گے
سپردِ خاک مرا ، ایک ایک خط نہ کرے
وہ بدگمانیوں میں فیصلے غلط نہ کرے
سلجھ بھی سکتا ہے جھگڑا اسے کہو کہ ابھی
جدائی کے کسی کاغذ پہ دستخط نہ کرے
✍︎واصف عابد علی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
احمد ندیم قاسمی
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
مومن خاں مومن
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے
قتیل شفائی
بس ایک خوف تھا زندہ تری جدائی کا
مرا وہ آخری دشمن بھی آج مارا گیا
خالد ملک ساحل
جانے والے نے ہمیشہ کی جدائی دے کر
دل کو آنکھوں میں دھڑکنے کے لیے چھوڑ دیا
جاوید صبا
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
~ احمد فراز
آج تک یاد ہے وہ شام جدائی کا سماں
تیری آواز کی لرزش ترے لہجے کی تھکن
عظیم مرتضی
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم۔
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ۔
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ۔
رنجش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لئے آ۔
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
احمد فراز
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
احمد فراز
مرشد وہ میری آنکھ سے اوجھل ہوا نہ جب
سورج تھا میرے سر پہ مگر رات ہوگئ
اس کی جدائی کھا گئی گھن کی کی طرح ہمیں
ہم سخت جان پہلے تھے یوں کھوکھلے نہ تھے
جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا وہ بجا نہ تھا
اتنے برے بھی کب تھے گر ہم بھلے نہ تھے
جدا ہونے کے صدمے کو اگرچہ ہنس کہ سہنا تھا
اسے رسمی سہی لیکن خدا حافظ تو کہنا تھا
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہوں
جانے وہ تو کدھر گیا جانے وہ ہم کدھر گئے
اب جدائ کے سفر کو میرے آسان کرو
تم خواب میں آ کر نہ مجھے پریشان کرو
( منور رانا )
بچھڑتے وقت اسے مڑ کے بھی نہیں دیکھا
تمام عمر جدائی میں عافیت چاہی
موت آئی نہ فلک سے کوئی قیامت اُتری
دِل یونہی ترک تعلق سے ڈرا کرتا تھا 🥺
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تُجھے پتا ہے ؟ صدائیں آتی ہیں مجھ کو شب بھر
تُو جس جگہ پر جُدا ہُوا تھا اُسی طرف سے
فیصل محمود
اتنی شدت سے نہ مل تو کہ جدائی چاہیں
یہی قربت تری دوری کا بہانہ بن جائے
اک جدائی کا وہ لمحہ کہ جو مرتا ہی نہیں
لوگ کہتے تھے سبھی وقت گزر جاتے ہیں
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اس سے پہلے کہ جدائی کی خبر تجھ سے ملے
ہم نے سوچا ہے کہ ہم تجھ سے بچھڑ جاتے ہیں
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو
منور رانا
ہوا ہے تجھ سے پھرنے کے بعد معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیاتھی
فاصلے تھے نہ جدائی تھی نہ تنہائی تھی
تیری قربت کا وہ لمحہ بھی غزل جیسا تھا
یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ
ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا
خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ
یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں
ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ
چار دینا دا پیار او ربا
بڑی لمبی جدائی
ایک تو سجن میرے پاس نہیں
دوجی ملن دی کوئ آس نہیں
اس پے یہ ساون آیا آگ لگائی
ہا یے لمبی جدائی
جدائی تاک میں بیٹھی ہوئی تھی
محبت کر رہے تھے مشوروں سے
تجھے میں نے مجھے تو نے گنوایا
مگر اب فائدہ ان تذکروں سے
مرے سب حوصلے مارے گئے ہیں
تمہاری کم سنی کے فیصلوں سے
ہمارے بیچ اک دیوار ہے اب
اسے اونچا کریں گے نفرتوں سے
پکارتی ہیں فرصتیں، کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا
جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی ، مجھے بھی صبر آ گیا
ناصر کاظمی
شدید دُکھ تھا اگرچہ تری جُدائی کا
سِواہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا
کوئی سوال جو پُوچھے ،تو کیا کہوں اُس سے
بچھڑنے والے!سبب تو بتا جدائی کا
پروین شاکر
عمر بیت سکتی ہے بات کو نبھانے میں
بات سے مکرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ تری جدائی کی یادگار ہے ورنہ
ایک زخم بھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
ناصرہ زبیری
لمحے ٹھہر گئے سانسیں پلٹ گئیں تیری جدائی میں
اس ادا سے جدا ہوا کچھ حلل نہ ہوا خدائی میں
جدائی، ایک درد بھری داستان ہے کہانی گو۔
دل ہے محبت میں پھولوں کا بستان گو۔
راتوں کی چھاؤں میں روشنی کی طلب گو۔
جدائی کی کہانی، دل کی حالتوں کا بیان گو۔
کٹ ہی گئی جدائی بھی، کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
مُجھے اپنے مرنے کا غم نہیں
مگر ہائے میں تُجھ سے بچھڑ جاؤں گا
جون ایلیا
وصل میں رنگ اُڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
آج تو چین سے رونے دو مجھے گوشے میں
ایک مدت پہ غم دل سے جدائی ہوئی ہے
میں تصّور بھی جُدائی کا بھلا کیسے کروں
میں نے قسمت کی لکیروں سے چُرایا ہے تُجھے
ہم ابھی ٹھیک سے ملے بھی نہ تھے
اور گھڑی آ گئی جدائی کی
تیرے اندازِجدائ میں سلیقہ ہے بہت
مجھ سے پہلے بھی کسی اور سے بچھڑا ہو گا!
جدائی کا لفظ ہے تنہائی کا حال،
شاعری میں اس کی ہے گہرائی،
دل میں چھپی ہوئی یہ تنازعات،
شعر کی زبان سے کھلتی ہیں رازات۔
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو
منور رانا
جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
جدائی نے اسے دیکھا سرِ شام
دریچے پر شفق کے رنگ برسے
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا
اتارے کون اب دیوار پر سے
تو جو جدائی کو اک رسم مانتا ہے اور میں
جو اس رسم کے نبھانے کا قائل ہی نہیں
~محمد فہد
عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ
آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا
ہر بار مجھے زخمِ جدائی نہ دیا کر ______
اگر تو میرا نہیں مُجھ کو دیکھائی نہ دیا کر
سچ جھوٹ تیرے آنکھ سے ہو جاتا ہے ظاہر
قسمیں نہ اُٹھا ______اتنی صفائی نہ دیا کر
وقتِ جدائی یار عجب کیفیات تھیں
میں مر رہا تھا اور وہ بہت مطمئن تھا
وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
جدائیوں کے زخم درد ذندگی نے بھر دیے
اسے بھی نیند آگئی مجھے بھی چین آگیا
پوچھتے کیا ہو جدائی میں جو گزری گزری
تم کو معلوم ہے سب حال کہیں کیا اپنا
پھینک جاتا ہے مرے زہن میں یادوں کے گلاب۔
اس جدائی میں بھی اس شخص کا ملنا دیکھو
یہ تیرے بعد کھلا ہے کہ جدائی کیا ہے
مجھ سے اب کوئی اکیلا نہیں دیکھا جاتا
کس کس کو بتاینگیں جدائ کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
کچھ تیری جدائی کی اذیت بھی کڑی تھی
کچھ دل نے بھی غم تیرا منایا نہیں اتنا
پھر اُس کے بعد خبر آئی کہ وہ خوش ہے بُہت
جُدا ہُوئے تھے تو ، حالات ایک جیسے تھے
نقصان تو میرا ہوا ہی ہے
تم نہ یہاں ملی نہ وہاں ملو گی۔
شب ِ جدائی اگر تو ہے عمر میں شامل
تو پھر گزر بھی کسی عمرِ مختصر کی طرح
عدیمؔ ہاشمی
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب ،
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب !
مومن خاں مومن
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
ناصر کاظمی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
جدائی طے تھی مگر یہ کبھی نہ سوچا تھا
کہ تو جدا بھی جداگانہ شان سے ہوگا
میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
میری غربت نے میری دنیا چھین لی حافی
میری اماں تو کہتی تھی کہ پیسا کچھ نہیں ہوتا
تم بڑے شہر کے باسی ہو تمھیں کیا معلوم__
گاؤں کے لوگ جدائی میں اجڑ جاتے ہیں.
میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
ایک عرصہ ہوا جدائی کو
دیو رخصت شہا مدینے کی
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے
تُو ہمیں اُن دنوں میں کیوں نہ ملا ؟
جب ہمیں شوق تھے سنورنے کے
کبھی آ بیٹھ میرے پاس تھوڑی گفتگو تو کر 🫶
کہ جتنا تو نے سنا ہے اتنے برے نہیں ہیں ہم
تمہارا میرا تعلق کوئی تو ہونا تھا ناں
یہ عشق وشق نہ ہوتا تو دشمنی کرتے
یہ کیا کہ جب بھی مِلو، پوچھ کے بتا کے مِلو
کبھی کرو مجھے حیران، اچانک آ کے مِلو
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
ہمارے بخت میں لکھا ہوا سہولت سے
بس ایک درد تھا جو ہر طرح میسر تھا
جوں جوں سبق ياد ہوۓ
زندگی نصاب بدلتی گئی
جانے کس راہ سے آ جاۓ وہ آنے والا
میں نے ھر سمت سے دیوار گرا رکھی ھے
شروع میں تو تھی “دریائے نیل ” سے بھی گہری
انجام کو پہنچی تو صحرا ہوئی مجبت
مرے نقوش مرا دائمی تعارف ہیں
میں کوئی رنگ کہیں عارضی نہیں بھرتا
نفرت کرنے سے ہماری خود کی انرجی ضائع ہوتی ہے
بہتر یہی ہے کہ آپ فرض کر لیں وہ وفات پاچکے ہیں
پھر شامِ سرد ، بھیگی فضا اور ترا خیال
چائے کا کپ ، لبوں پہ دعا اور ترا خیال
ٹیرس پہ بیٹھے بیٹھے زمانے ہی جی لیے
جب آ کے چھو رہی تھی ہوا اور ترا خیال