فراڈ کا شکار

پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں

’مجھ سے رابطہ کیا گیا اور مجھے آن لائن جاب کی آفر دی گئی۔ رابطہ کرنے والوں نے کہا کہ مجھے یوٹیوب کے چینلز سبسکرائب کرنے ہوں گے، اور تین چینل کامیابی سے سبسکرائب کرنے پر جیز کیش یا ایزی پیسہ کے ذریعے 600 روپے میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائیں گے۔‘

حارث کہتے ہیں اُن کو یہ کام بہت آسان لگا اور ابتداً انھوں نے فوراً بتائے گئے تین چینلز سبسکرائب کر لیے۔ اس کے بعد انھیں ٹیلی گرام میسیجنگ ایپ پر ایک نمبر پر رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ جب انھوں نے اپنے ’ٹاسک‘ کا سکرین شاٹ اور اکاؤنٹ کی تفصیلات بھیجیں تو اُن کو تھوری ہی دیر میں 600 روپے موصول ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ رقم کی منتقلی پر ان کا اعتماد بڑھا کہ شاید یہ اصلی نوکری ہے۔ ’اِس کے بعد مجھے ایک گروپ میں ایڈ کیا گیا جہاں مزید 12 ٹاسک دیے گئے جن میں کچھ چینلز کو لائیک کرنا تھا اور کچھ جگہوں پر آن لائن ووٹنگ میں حصہ لینا تھا۔ اس کام کے بدلے میرے اکاؤنٹ میں تقریباً 1200 روپے بھیجے گئے۔‘
حارث کو بتایا گیا کہ اگلے مرحلے میں انھیں ایک کرپٹو ایکسچینج میں سات ہزار روپے کی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

’مجھے بتایا گیا کہ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو مجھے مزید 9,800 روپے ملیں گے۔‘

حارث نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد سات ہزار روپے کی سرمایہ کاری کر دی اور پھر وہی ہوا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ ’پیسے بھیجنے کے پانچ منٹ کے اندر ہی 9,800 روپے میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گئے۔ وہ ایسا اس لیے کر رہے تھے تاکہ ثابت کر سکیں کہ بھئی دیکھ لو ہم قابل اعتبار لوگ ہیں۔‘

اس کے بعد حارث کو ایک اور ٹاسک دیا گیا جس کے بدلے انھیں 1800 روپے ملے۔ اس کے بعد دوبارہ کرپٹو میں 18 ہزار کی سرمایہ کاری کرنے کو کہا گیا جس کے بدلے انھیں 35 ہزار روپے دیے جانے کی خوشخبری سُنائی گئی۔

تاہم اس مرتبہ جب حارث نے 18 ہزار بھیج دیے تو اُن کو بتایا گیا کہ انھیں مزید 58 ہزار انویسٹ کرنا ہوں گے اور اگر وہ یہ نہیں کرتے تو اُن کے پہلے کے پیسے بھی واپس نہیں ملیں گے۔

’ان لوگوں نے کہا کہ آپ کو فوراً سرمایہ کاری کرنی ہو گی، اگر فوراً نہیں کریں گے تو آپ کا کریڈٹ سکور کم ہو جائے گا۔ مجھے رقم بھیجنے میں 10 سے 15 منٹ لگ گئے اور اس دوران میرا کریڈٹ سکور 100 سے کم ہو کر 90 ہو گیا۔‘

اور اس کے بعد مزید سرمایہ کاری کے تقاضے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حارث کو بتایا گیا کہ جب تک ان کا کریڈٹ سکور 90 سے واپس 100 نہیں ہو جاتا تب تک وہ اپنے پیسے اکاؤنٹ سے نکال نہیں سکیں گے۔ اُن کو مختلف اوقات میں تقریباً ایک لاکھ 13 ہزار روپے مزید ٹرانسفر کرنے کو کہا گیا۔

’میں نے وہ بھی کر دیا، اور کریڈٹ سکور 95 تک پہنچ گیا۔‘
اس کے بعد اُن کو کہا گیا کہ اگر وہ مزید ڈیڑھ لاکھ روپے ڈالتے ہیں تو ان کا کریڈٹ سکور 100 ہو جائے گا اور وہ اپنے جمع شدہ تمام تر پیسے نکال پائیں گے۔ مگر تب تک حارث اپنے والد کے اکاؤنٹ میں موجود تمام رقم خرچ کر چکے تھے چنانچہ جب انھوں نے مزید پیسے بھیجنے سے معذوری ظاہر کی تو انھوں فوری تمام گروپس سے نکال کر بلاک کر دیا گیا۔

حارث کہتے ہیں کہ ’میں اب بھی اس کرپٹو کی ویب سائٹ پر اپنا اکاؤنٹ لاگ ان کرتا ہوں تو وہاں میرا اکاؤنٹ وہاں شو ہو رہا ہے لیکن وہ پیسے میں نکال نہیں سکتا۔‘

حارث وہ واحد فرد نہیں ہیں جنھیں فراڈ کرنے والوں نے آن لائن کام اور سرمایہ کاری کا جھانسہ دے کر لوٹا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی نگہت داد اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ کئی لوگ صرف اس شرمندگی کے باعث کہ وہ کیسے کسی کے ہاتھوں بیوقوف بن گئے، شکایت درج کروانے سے گریز کرتے ہیں۔

نگہت کہتی ہیں کہ لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ اس میں اُن کی کوئی غلطی نہیں اور کوئی بھی شخص ایسے فراڈ کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ ’یہ فراڈ بڑی مہارت سے ترتیب دیے جاتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فراڈ کرنے والوں کے پاس لوگوں کا ڈیٹا ہوتا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔

’خراب معاشی حالات کی وجہ سے لوگ بہت پریشان ہیں اور اُن کو جب بھی کوئی کمائی کا موقع نظر آتا ہے تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق عام افراد کی ایسے سکیم کا باآسانی شکار ہونے کی ایک اور وجہ سلیبریٹیز (معروف شخصیات) کی جانب سے آن لائن نوکریوں اور کمائی کے مواقعوں کے بارے میں کی جانے والی تشہیر ہے۔ یہ سلیبریٹیز اور سوشل میڈیا انفلوئینسرز آپ کو یہ نہیں بتاتے کہ آپ آن لائن فراڈ سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں