نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل محمود الحسن کے مطابق ان کے ادارے کو گذشتہ چھ ماہ میں 70 ہزار شکایات موصول ہوئی ہیں جبکہ ایک برس میں موصول ہونے والی شکایات کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موصول ہونے والی شکایات میں سب سے بڑی تعداد فائنانشل سائبر کرائم کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ہراسانی اور ہتک عزت کی شکایات ہیں۔
(سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ ادارے نے تاحال جعلی کال سینٹرز سے منسلک 248 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
سب سے زیادہ ریڈز اسلام آباد میں کی گئیں۔ اس کے بعد صوبہ پنجاب کے شہروں فیصل آباد اور ملتان میں بھی چھاپے مارے گئے.
ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ سائبر فراڈ میں پکڑے جانے والے کئی افراد کے خلاف کیا گیا کیس کمزور ہوتا ہے اور ان کی ضمانت ہو جاتی ہے کیونکہ ان کے جھانسے میں آنے والے بیشتر افراد دوسرے ممالک میں مقیم ہوتے ہیں اور پاکستان نہیں آ سکتے، لیکن ان کے سہولت کار پاکستان اور بیرون ممالک مقیم ہوتے ہیں۔
ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ ان کے ادارے میں 434 افراد کام کرتے ہیں اور ان کے پاس افرادی قوت کی شدید کمی ہے۔
نہوں نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا پولیس کے پاس فارنزک لیبارٹری ہی نہیں، جس کی وجہ سے دونوں ادارے این سی سی آئی اے کی فارنزک لیبارٹری استمعال کرتے ہیں۔

Nice post! 1754788951