ٹاؤن پلاننگ

نئی ٹاؤن پلاننگ کیسے لاکھوں لوگوں کے گردے فیل ہونے کا بڑا سبب

نئی ٹاؤن پلاننگ لاکھوں لوگوں کے گردے فیل ہونے کا بڑا سبب بن رہی ہے
متعلقہ محکموں اور مذہبی علماء کی خاموشی سوالیہ نشان ہے
تحریر: و اکبر شیخ اکبر
بات کا آغاز بہاول پور سے کرتے ہیں لیکن موضوع کے تناظر میں پورے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بشمول انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور براعظم افریقہ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ فی الحال میرا فوکس پاکستان ہے۔ راقم آج 06اگست 2019 کو بہاول پور پریس کلب گیا۔ اخبا ر بینی کے لیے مخصوص ٹیبل پر صحافی دوست بیٹھے تھے۔ سینئر صحافی اطہر فاروق جو گردے فیل ہونے کے بعد ڈائیلائیسز کرانے پر مجبور ہیں، کہنے لگے کہ حال ہی میں بہاول پور پریس کلب میں جو ROواٹر فلٹر پلانٹ لگایا گیا تو ماہرین نے معائنے کے بعد بتایا کہ پریس کلب میں زیر زمین نکالے جانے والے پانی کا 60فیصد wastage ہے یعنی آلودہ اورگردے فیل کرنے کا اور جگر کو نقصان پہنچا کر ہییپاٹائیٹس کے مرض میں مبتلا کرنے کا سبب بننے والا ہے۔ اطہر فاروق کا موقف تھا کہ بہاول پور میں جو نئے رہائشی ٹاؤنز بن رہے ہیں وہاں ہزاروں کی تعداد میں مکان بھی بن چکے ہیں اور لاکھوں لوگ رہائش بھی اختیار کر چکے ہیں وہاں کئی ٹاؤنز کے پاس سیوریج سسٹم کا کوئی پلان نہیں بس وہ ٹاؤن کے اندر ہی کنواں کھود دیتے ہیں اور سارے ٹاؤن کا سیوریج اس کنواں میں جا کر زیر زمین پانی میں شامل ہو رہا ہے پھر وہ پانی نکال کر پیا جا رہا ہے۔ بیشتر ٹاؤنز کا یہی حال ہے۔ حیرت ہے کہ ان ٹاؤنز کے ٹاؤن پلان کیسے متعلقہ محکموں سے منظور ہو جاتے ہیں پھر وہاں گھر بھی بن جاتے ہیں اور لوگ رہائش بھی رکھ لیتے ہیں۔ فیس بک پر شکور پٹھان میرے ساتھ ایڈ ہیں، گزشتہ دنوں ان کا ایک بلاگ فیس بک پر پڑھا، انھوں نے لکھا کہ انگلستان میں قانون ہے کہ اگر آپ اپنے گھر میں کوئی تبیدیلی لانا چاہتے ہیں جیسے گھر کی کوئی دیوار اونچی کرنا چاہتے ہیں یا گھر کی پچھلی طرف دروازہ نکالنا چاہتے ہیں تو آپ ٹاؤن کمیٹی کواپنا پلان دیں گے اور ٹاؤن کمیٹی آپ کے ہمسائیوں کو بلائے گی کہ آیا ان کی دیوار اونچی ہونے سے آپ کے گھر میں دھوپ اور ہوا کی براہ راست آمد تو متاثر نہیں ہوتی اور اگر ہمسائے اعتراض کر دیں تو آپ اپنے پلان پر عمل نہیں کر سکتے یعنی اپنے گھر میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ ادھر پاکستان میں جس کے پاس پیسے آ جائیں یا وہ اپنی امارت کا رعب ڈالنا چاہتا ہو تو وہ سنگل سٹوری مکان پر دوسری اور تیسری منزل ڈال لیتا ہے اور اوپر پانی کی ٹینکی کو بھی اونچا کرنے کے لیے بہت خرچہ کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمسائیوں کے لیے دھوپ اور ہوا کی براہ راست گزر کو متاثر کرتا ہے بلکہ دوسری، تیسری منزل کے کمروں کی کھڑکیوں سے ان کے گھر وں میں جھانک کر ان کے پردہ اور پرائیویسی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ راقم نے اپنے اسی البم ”اکبر شیخ اکبر کی تجاویز“ میں لکھا تھا کہ گھروں کی مختلف ڈیزائننگ اور آرکیٹیکچر لوگوں میں مالی کرپشن کا رجحان پیدا کرتا ہے۔ بہتر ہے تمام گھر ایک جیسی ڈیزائننگ میں ہوں اور کوئی بھی گھر ہم دیوار نہ ہو۔ نئے ٹاؤنز میں جو سڑکیں اور گلیاں بنائی جا رہی ہیں وہ اتنی تنگ ہوتی ہیں کہ اگر ایک کار سامنے آ رہی ہے یا کسی نے اپنے گھر کے باہر اپنی گاڑی پارک کر دی ہے تو دوسری گاڑی کے لیے گزرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ نئے ٹاؤنز شہروں کے زیر زمین پانی میں اپنا سیویج ڈال کر لاکھوں لوگوں کے گردے فیل ہونے کا سبب بن رہے ہیں اور متعلقہ محکمے خاموش ہیں۔ کم ازکم مذہبی علماء ہی جمعہ کے خطبہ میں اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا وہ بھی خاموش رہیں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں