جنسی کھلونوں

جنسی کھلونوں کی انڈسٹری کی سالانہ مارکیٹ

کیا آپ جانتے ہیں کہ سال 2023 میں “جنسی کھلونوں” کی انڈسٹری کی “سالانہ مارکیٹ” کتنی رہی ہے؟ اگر نہیں جانتے تو جان لیں کہ سال 2023 میں ان کی سالانہ مارکیٹ 48.6 ارب “امریکی ڈالر” رہی ہے جو تقریباً 135.1 کھرب یعنی کہ 13,510 ارب پاکستانی روپیہ بنتا ہے۔

یہ رقم کتنی زیادہ ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے104 باقاعدہ ممالک کی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) اس سے کم ہے اور حتیٰ کہ دنیا میں سب سے کم آمدنی والے 30 ممالک کی “کل جی ڈی پی” ملا بھی لیں تو وہ بھی اس کے برابر نہیں بنتی ہے. اب اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ سال 2030 تک اس “انڈسٹری” کی مالیت 82.2 ارب امریکی ڈالر بن جائے گی جو کہ 228.5 کھرب یا 22,851.6 ارب پاکستانی روپیہ بنتا ہے جو کہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔

اسی طرح سال 2024 میں خواتین کے ‘جنسی کھلونوں’ کی انڈسٹری کی کل مالیت 24.89 بلین امریکی ڈالر تھی جو کہ تقریباً 69.2 کھرب یا پھر تقریباً 6,924 ارب پاکستانی روپیہ بنتا ہے۔ اسطرح سال 2024 میں مردوں کے جنسی کھلونوں کی انڈسٹری کی مالیت تقریباً 21.5 بلین امریکی ڈالر تھی جو کہ 59.7 کھرب یا 5,977 ارب پاکستانی روپیہ بنتی ہے۔

اکثر لوگ مجھے بولتے ہیں کہ جی یہ مغربی ممالک کی باتیں ہے تو میں آپ کو ایک “مشرقی ملک” کا احوال دے دیتا ہوں جو ثقافت و تہذیب اور زبان غرض ہر چیز میں ہم سے بہت زیادہ قریب ہے مطلب میں آپ کو بھارت کی مثال دیتا ہوں۔

بھارت میں سال 2024 میں “جنسی کھلونوں” کی انڈسٹری کی مالیت 112.45 ملین امریکی ڈالر رہی ہے جو 31.2 ارب پاکستانی روپیہ بنتی ہے۔ ایکسپرٹس کے مطابق سال 2033 تک بھارت میں اس انڈسٹری کی مالیت 457.93 ملین ڈالرز تک پہنچ جائیگی جو 1.27 کھرب یعنی 127 ارب پاکستانی روپیہ بنتی ہے۔ یہ دکھلاتا ہے کہ اگرچہ یہ “مغرب” کے مقابلے میں “کم” ہے لیکن پھر بھی کافی زیادہ ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ فیمینزم کے زیر اثر اس کو استعمال کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ 72.4 فیصد کیسز میں خواتین کے استعمال میں آتی ہے اور باقی 28 بعد فیصد کیسز میں مرد کے استعمال میں آتے ہیں اور خواتین کے جنسی کھلونوں کی انڈسٹری بھی مردوں کے مقابلے میں بڑی ہے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ یاد رہے یہ LGBTQ والوں کیوجہ سے بھی اس میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اسکو پھیلانے میں اس گروہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ اب جو بھی نئے “جنسی کھلونے” لانچ کیے جاتے ہیں، ان میں 20 فیصد خصوصی طور پر LGBTQIA کے لیے ہی ڈیزائن ہوتے ہیں۔

اب آپ بتائیے کہ جس چیز پر ‘کھربوں روپوں’ کا بزنس کھڑا ہے اگر آپ یا میں اسکی مخالفت کرتے ہیں یا اسکے نقصانات بتاتے ہیں تو سرمایہ دار کیا آپ کو یا ہمیں یہ کرنے دیں گے؟

یا

وہ اس کے برعکس ان چیزوں کی مزید تشہیر کریں گے؟

ظاہر ہے کہ وہ اس کی تشہیر کریں گے جو وہ کر رہے ہیں آپ کو ہندوستانی سنیما میں یہ چیزیں اب کامن نظر آنا شروع ہو گئی ہوگی اور پوری دنیا کی میڈیا کا یہ حال ہے۔ اسطرح بعض ڈاکٹر یا سیکس ایکسپرٹس کے ذریعے سے اسکے فوائد گنوائے جاتے ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ سوشل میڈیا کے اوپر “مسلمان کپلز” باقاعدہ اس کی تشہیر کر رہے ہیں اور اس کے طریقے وغیرہ بتلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کے پیچھے کھربوں روپیہ کا سرمایہ ہے تو میڈیا کے ذریعے اسکا پھیلایا جانا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ بھارت کی “فلم انڈسٹری” بالیوڈ اور ویب سیریزوں میں یہ اب ایک کامن بات ہے جس وجہ سے ہی بھارت کے اندر یہ انڈسٹری کامیابی کے ڈگر پر ہے۔

یہ استعمال کتنا عام ہو چکا ہے اس بات کا اندازہ تو اس بات سے لگائیں کہ امریکہ میں 82 فیصد خواتین کے پاس کم از کم ایک جنسی کھلونا ضرور (خاص کر وائبریٹر) موجود ہے اور اسی طرح اٹلی میں 70 فیصد لوگ جنسی کھلونا کبھی نہ کبھی استعمال کر چکے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس میں بھی اس کا ریشو 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ پڑوسی ملک بھارت کے اندر ایک سروے کے مطابق 45 فیصد لوگ جنسی کھلونے استعمال کر چکے ہیں۔

جنسی کھلونوں کے فائدہ یا نقصانات سے قطع نظر میں اس بات پر “فوکس” کرانا چاہتا ہوں کہ ہم ایک “تہذیبی یلغار” کا شکار ہے جو ہماری ثقافت اور مذہب کی “جڑوں” پر حملہ آور ہے اور اگر ہم اپنی “علیحدہ شناخت” برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔ مغرب سے درآمد شدہ فلسفہ، نظام بلکہ سارے مواد کا Critical Evaluation کرنا اب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تہذیب کی اس لڑائی میں آپ جدیدیت کے نام پر مغرب کو من و عن قبول کرتے ہیں یا اپنی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، یہ فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے۔

عبید

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں