شوگر ملوں

پاکستان میں شوگر ملوں کے مالکان کون ہیں

پاکستان میں شوگر انڈسٹری ملک کی معیشت کا تقریباً ساڑھے تین فیصد حصہ رکھتی ہے، اور اس وقت ملک بھر میں 72 سے 90 شوگر ملیں کام کر رہی ہیں.پاکستان میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جانب سے شوگر ملوں کے مالکان کے نام کی تفصیلات بھی مانگی گئیں تاہم حکومتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
اجلاس میں بار بار مالکان کے نام پوچھنے کے باوجود حکومتی اداروں کی جانب سے مالکان کے ناموں کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے 48 ارکان ہیں تاہم سرکاری ادارے کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 72 شو گر ملز کام کر رہی ہیں۔
جبکہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی تعداد 85 ہے جن کی اکثریت یعنی 45 شوگر ملز پنجاب میں قائم ہیں جبکہ سندھ میں ان کی تعداد 32 اور خیبر پختونخوا میں آٹھ ہے۔
ان ملوں کے مالکان میں خالص کاروباری افراد کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات اور بااثر خاندان بھی شامل ہیں۔ کچھ نمایاں نام درج ذیل ہیں.
مزید پڑھیں:چینی کی قیمت میں اضافے سے شوگر ملوں کو 300 ارب کا منافع
جہانگیر ترین:
جے ڈی ڈبلیو گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹر، جو تین شوگر ملوں کا مالک ہے . ان میں دو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور ایک سندھ کے ضلع گھوٹکی میں موجود ہے۔ جہانگیر ترین پر ماضی میں چینی سے متعلق منی لانڈرنگ کے الزامات لگ چکے ہیں.

شریف خاندان:
نواز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، اور دیگر خاندانی افراد اتفاق شوگر ملوں سمیت متعدد ملوں سے منسلک ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے 2018 میں شریف خاندان کی پانچ ملوں کی منتقلی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا .

مونس الٰہی اور چوہدری خاندان:
چوہدری شوگر مل پاکپتن سمیت متعدد ملوں کے مالکان ہیں، جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں.

خسرو بختیار:
وفاقی وزیر رہ چکے ہیں، ماضی میں ان کی شوگر ملوں کو پنجاب حکومت سے سبسڈی ملی تھی.

کئی دیگر سیاسی اور کاروباری خاندان، جیسے مہران شوگر ملز (جو خالص کاروباری ادارہ ہے)، بھی اس انڈسٹری کا حصہ ہیں.
یہ شخصیات نہ صرف شوگر انڈسٹری پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ سیاسی فیصلوں میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، جس سے “شوگر مافیا” کا تصور ابھرتا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے سوال اٹھایا کہ راتوں رات ٹیکس چھوٹ کے فیصلے کیوں کیے گئے، جو شوگر ملوں کے حق میں تھے.
پاکستان کی شوگر انڈسٹری سیاسی اور معاشی طاقت کا مرکز بن چکی ہے، جہاں بااثر شخصیات اربوں روپے کما رہی ہیں، لیکن عوام اور کسان مشکلات کا شکار ہیں۔ چینی کی قیمتوں میں اضافہ اور شوگر ملوں کے 300 ارب روپے کے منافع نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ نظام عوام کے مفاد میں ہے یا صرف چند طاقتور افراد کے لیے؟

کون سی شوگر ملوں نے چینی برآمد کی؟

سرکاری دستاویزات کے مطابق جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز سب سے بڑی برآمد کنندہ کے طور پر سامنے آئی، جس نے 73,090 میٹرک ٹن (73.09 ملین کلوگرام) چینی برآمد کی، جس کی مالیت 11.1 ارب روپے تھی۔

اس کے بعد ٹنڈلیانوالہ شوگر ملز ہے جس نے 41,412 میٹرک ٹن (5.98 ارب روپے) چینی برآمد کی۔

حمزہ شوگر ملز نے 32,486 میٹرک ٹن (5.03 ارب روپے) چینی برآمد کی۔

تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمیٹڈ نے 29,107 میٹرک ٹن (4.55 ارب روپے).
المویز انڈسٹریزنے 29,453 میٹرک ٹن (4.32 ارب روپے).
جے کے شوگر ملزنے 29,969 میٹرک ٹن (4.09 ارب روپے).
مدینہ شوگر ملزنے 18,869 میٹرک ٹن (2.79 ارب روپے).
فاطمہ شوگر ملزنے 17,365 میٹرک ٹن (2.68 ارب روپے).
ڈہرکی شوگر ملز: 16,533 میٹرک ٹن (2.45 ارب روپے).
رمضان شوگر ملزنے 16,116 میٹرک ٹن (2.41 ارب روپے، ).
انڈس شوگر ملزنے 14,047 میٹرک ٹن (2.10 ارب روپے).
اشرف شوگر ملزنے 11,317 میٹرک ٹن (1.67 ارب روپے).
شکرگنج لمیٹڈ نے 7,867 میٹرک ٹن (1.13 ارب روپے).
یونی کول لمیٹڈ نے 6,857 میٹرک ٹن (1.02 ارب روپے).
حبیب شوگر ملزنے 6,253 میٹرک ٹن (960 ملین روپے) کی چینی برآمد کی.

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں