خواجہ حیدر علی “آتش” (1778–1846) لکھنؤ کے مشہور غزلگو شاعر تھے جنہیں غزل کے جادوگر کے لقب سے جانا جاتا ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف ایک جذباتی اور سحرآمیز لہجہ رکھتی ہے بلکہ اس میں نفاستِ فکر، سچائیِ غم، اور سادگی کی قدرتی جھلک بھی نمایاں ہے۔ آتش نے ابتدا میں فوجی تربیت حاصل کی مگر جلد ہی غزل گوئی کی طرف مائل ہوئے.
اے صنم، جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے،
اسی اللہ نے مجھے بھی محبت دی ہے
کچھ نظر آتا نہیں اس کے تصور کے سوا،
حسرتِ دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا
بُت خانہ توڑ ڈالیئے، مسجد کو ڈھائیے،
دل کو نہ توڑئے—یہ خدا کا مقام ہے
نا پاک ہوگا کبھی حسن و عشق کا جھگڑا،
وہ قصہ ہے—جس کا کوئی گواہ ہی نہیں
لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا،
لختِ جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالے
یاد رکھیں نامیوں کے نشاں کیسے کیسے،
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
وہ ہوا دورِ مے خوشگوار رہ میں ہے،
خزان چمن سے ہی جاتی بہار رہ میں ہے