عبید اللہ علیم

عبید اللہ علیم کی شاہکار شاعری

اردو کے ممتاز شاعر عبیداللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آگئے جہاں 1969ء میں انہوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی مگر حکام بالا سے اختلافات کی وجہ سے 1978ء میں انہوں نے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، ویران سرائے کا دیا، نگار صبح کی امید میں شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ان کی کلیات ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دو نثری تصانیف میں کھلی ہوئی ایک سچائی اور میں جو بولا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی ہے۔
18 مئی 1998ء کو عبیداللہ علیم کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں اسٹیل مل کے نزدیک رزاق آباد میں باغ احمد نامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
عبید اللہ علیم، اردو شاعری کا ایک درخشاں ستارہ، جن کے لفظ دل کی گہرائیوں سے نکل کر روح کو چھوتے ہیں۔ ان کی غزلیں محبت، جدائی، اور انسانی جذبات کی ایسی تصویر کشی کرتی ہیں جو ہر دل کو مسحور کر دیتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم علیم کے شاہکار اشعار کی دنیا کا سفر کریں گے، جہاں لفظ محض الفاظ نہیں، بلکہ احساسات کی ایک کہکشاں ہیں۔

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے

بنا گلاب تو کانٹے چبُھا گیا اِک شخص
ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص

تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص

میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اِک شخص

پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص

محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص

محبّتوں نے کسے کی بھُلا رکھا تھا اُسے
ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص

کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اِک شخص

کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے،
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

اِک وہم ہے یہ دُنیا اس میں
کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ

ہر لمحہ احساس کی صہبا رُوح میں ڈھلتی جاتی ہے
زیست کا نشّہ کچھ کم ہو تو ہو آئیں میخانے لوگ

جیسے تمہیں ہم نے چاہا ہے کون بھلا یوں چاہے گا
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ

یُوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں
جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ

آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں
دنیا بھی تو دشتِ بلا ہے ہم ہی نہیں دیوانے لوگ

کیسے دکھوں کے موسم آئے کیسی آگ لگی یارو
اب صحراؤں سے لاتے ہیں پھولوں کے نذرانے لوگ

کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ

مرے خدا مجھے وہ تابِ نے نوائی دے
میں چپ رہوں بھی تو نغمہ مرا سنائی دے

گدائے کوئے سخن اور تجھ سے کیا مانگے
یہی کہ مملکتِ شعر کی خدائی دے

نگاہِ دہر میں اہلِ کمال ہم بھی ہوں
جو لکھ رہے ہیں وہ دنیا اگر دکھائی دے

چھلک نہ جائوں کہیں میں وجود سے اپنے
ہنر دیا ہے تو پھر ظرفِ کبریائی دے

مجھے کمالِ سخن سے نوازنے والے
سماعتوں کو بھی اب ذوقِ آشنائی دے

نمو پذیر ہے یہ شعلہ نوا تو اِسے
ہر آنے والے زمانے کی پیشوائی دے

کوئی کرے تو کہاں تک کرے مسیحائی
کہ ایک زخم بھرے دُوسرا دُہائی دے

میں ایک سے کسی موسم میں رہ نہیں سکتا
کبھی وصال کبھی ہجر سے رہائی دے

جو ایک خواب کا نشہ ہو کم تو آنکھوں کو
ہزار خواب دے اور جراتِ رسائی دے

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ہیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

یہ دورِ بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی، کرامتیں کیسی

کوئی دُھن ہو میں ترے گیت ہی گائے جائوں
درد سینے میں اُٹھے شور مچائے جائوں

خواب بن کر تو برستا رہے شبنم شبنم
اور بس میں اِسی موسم میں نہائے جائوں

تیرے ہی رنگ اُترتے چلے جائیں مجھ میں
خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جائوں

جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبت کیسی
سوچتا جائوں مگر دل میں بسائے جائوں

تُو اَب اُس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے
زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جائوں

یہی چہرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جائوں

جان لو چیز ہے کیا رشتہ جاں سے آگے
کوئی آواز دیئے جائے میں آئے جائوں

شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہیں آئیں
دُھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جائوں

اہل دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو میرے
بزم میں آ ہی گیا ہوں تو سنائے جائوں

یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزلِ سفر میں ہوں

ابھی نظر نہیں ایسی کہ دُور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کس اثر میں ہوں

پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلۂ جاں سے
شریک میں بھی اسی محفلِ ہنر میں ہوں

جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے
پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں

جو سایہ ہو تو ڈروں اور دھوپ ہو تو جلوں
کہ ایک نخلِ نمو خاکِ نوحہ گر میں ہوں

کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا
ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں ہوں

بچھڑ گئی ہے وہ خوشبو ،اُجڑ گیا ہے وہ رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشمِ تر میں ہوں

قصیدہ خواں نہیں لوگو کہ عیش کر جاتا
دعا کہ تنگ بہت شاہ کے نگر میں ہوں

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آئو اب ملیں یوں بھی
کہ رُوح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے

محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

میں وہ چراغِ سرِ رہ گزارِ دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں ڈھل جائے

ہر ایک لحظہ یہی آرزو، یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے

دوشعر

جلتی ہے کتنی دیر ہوائوں میں میرے ساتھ
اک شمع پھر مرے لئے روشن ہوئی تو ہے
جس میں بھی ڈھل گئی اسے مہتاب کر گئی
میرے لہو میں ایسی بھی اک روشنی تو ہے

جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی
بدن پرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی

کوئی عزیز نہیں ماسوائے ذات ہمیں
اگر ہوا ہے تو یوں جیسے زندگانی ہوئی

نہ ہو گی خشک کہ شاید وہ لوٹ آئے پھر
یہ کشت گزرے ہوئے ابر کی نشانی ہوئی

تم اپنے رنگ نہائو ،میں اپنی موج اڑوں
وہ بات بھول بھی جائو جو آنی جانی ہوئی

میں اُس کو بھول گیا ہوں وہ مجھ کو بھول گیا
تو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی

کہاں تک اور بھلا جاں کا ہم زیاں کرتے
بچھڑ گیا ہے تو یہ اس کی مہربانی ہوئی

ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت
کوچہ کوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت

جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت

ہم تو جہاں والوں کی خاطر جان سے گزرے جاتے ہیں
پھر یہ ستم کیا ہے کہ ہمیں پرتنگ ہوا ہے دہر بہت

اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اُ ٹھیں تو لہر بہت

رات آئی تو گھر گھر وحشی سایوں کی تقسیم ہوئی
دن نکلا تو جبر کی دھوپ میں جلتا ہے یہ شہر بہت

ساری عمر تماشا ٹھہری ہجر وصال کی راہوں کا
جس سے ہم نے پیار کیا وہ نکلا ہے بے مہر بہت

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں