لالہ لجپت رائے

لالہ لجپت رائے: پاکستان کا پہلا تصور پیش کرنے والے پنجابی رہنما

لالہ لاجپت رائے کو اکثر ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے ایک انقلابی رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، لیکن ان کی شخصیت کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو کم معروف ہیں.لالہ لاجپت رائے کو عام طور پر ہندو قوم پرست رہنما مانا جاتا ہے، لیکن ان کی دوراندیشی، حقیقت پسندی اور مسلمانوں کے سیاسی حق کو تسلیم کرنے کی سوچ قابلِ توجہ ہے۔
لالہ لجپت رائے 28 جنوری 1865 کو برطانوی پنجاب کے موضع دھودیکے لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رادھا کرشن اگروال ایک سرکاری سکول میں اُردو اور فارسی کے استاد تھے اور سرسید احمد خان کے بڑے مداح تھے۔ لالہ لجپت رائے کی والدہ گلاب دیوی سماجی خدمت کے لیے جانی جاتی تھیں۔

لالہ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وکیل بنے۔ والد لالہ رادھا کرشن کی سیاسی سرگرمیوں سے متاثر ہو کر سیاسی زندگی کی ابتدا کی۔
سنہ 1892 میں لالہ لاہور منتقل ہو گئے۔لاہور میں نیشنل کالج کی بنیاد رکھی (جہاں بھگت سنگھ نے بھی تعلیم حاصل کی).
آریہ سماج تحریک کے سرگرم رکن برطانوی راج کے خلاف سیاسی تحریریں اور تقریریں ساتھی رہنما بال گنگا دھر تلک، بپّن چندرا پال
(ان تینوں کو “لال، بال، پال” کہا جاتا تھا).

لالہ لاجپت رائے نے 1905 میں ایک خط میں اس بات کا ذکر کیا کہ:
“اگر ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے، تو بہتر یہی ہے کہ ایک علیحدہ مسلم ریاست قائم کر دی جائے۔”
یہ بات علامہ اقبال اور محمد علی جناح کے نظریہ پاکستان سے کئی سال قبل کی گئی تھی۔
اس خط میں انہوں نے مسلمانوں کی جداگانہ تہذیب، مذہب، ثقافت اور سیاست کو تسلیم کیا گیا
برصغیر کی مشترکہ قومیت کو ایک غیر حقیقی خواب قرار دیا
علیحدگی کو امن کا ممکنہ حل سمجھا
یہ تصور بعد میں 1930 میں اقبال کے خطبہ الٰہ آباد اور پھر 1940 میں قراردادِ پاکستان میں کھل کر سامنے آیا۔
سنہ 1905 میں لالہ انگلستان گئے۔ پنجاب میں سیاسی مظاہروں میں حصہ لینے کے بعد انھیں مئی 1907 میں بغیر مقدمہ چلائے منڈالے، برما (موجودہ میانمار) جلا وطن کر دیا گیا۔جیل سے رہائی کے بعد لالہ سوراج پارٹی میں شامل ہو گئے۔ لالہ ذات پات، جہیز، اچھوت اور دیگر غیر انسانی طور طریقوں کے خلاف تھے۔
بھگت سنگھ نے لالہ لجپت رائے کی موت کا ذمہ دار پولیس چیف کو قرار دیا مگر ان کے بجائے غلط شناخت کرتے ہوئے جونیئر افسر جے پی سانڈرز کو قتل کر دیا اور پھر بھگت سنگھ کو سزائے موت سے بچنے کے لیے لاہور سے بھاگنا پڑا۔
وفات کے بعد لالہ کا مجسمہ لاہور میں نصب ہوا۔ یہ مجسمہ گول باغ کے بعد کچھ عرصہ میو سکول آف آرٹس کی پارکنگ میں رہا۔ اس مجسمے کو آزادی کے بعد 15 اگست 1948 کو شملہ میں مال پر منتقل کیا گیا۔
اپنی سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ، لالہ جی کو پنجاب نیشنل بینک کے ساتھ ساتھ لکشمی انشورنس کمپنی کے بانیوں میں سے ایک کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔
لالہ لجپت رائے کی والدہ گلاب دیوی کی وفات 1927 میں تپ دق سے ہوئی۔ اسی سال جس جگہ لالہ کی والدہ نے جان دی اسی جگہ انھوں نے دو لاکھ روپے سے خواتین کے لیے گلاب دیوی ٹرسٹ ہسپتال کی بنیاد رکھی۔
ہاں نصب سنگ مرمر کی تختی انگریزی اور ہندی میں بتاتی ہے: ’شریمتی گلاب دیوی ہسپتال برائے خواتین، اس کا افتتاح مہاتما گاندھی نے 17 جولائی 1934 کو کیا۔
لاہور میں لالہ لجپت رائے کے نام سے دھرم پورہ میں ایک گلی بھی موسوم ہے لیکن ان کی سب سے بڑی یادگار گلاب دیوی ہسپتال ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں