آم سفارتکاری

آم سفارتکاری: کیا بنگلہ دیش کا موقف انڈیا کے لیے نرم ہو رہا ہے

بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات شیخ حسینہ کے دور کے بعد سے کشیدہ رہے ہیں، خاص طور پر اگست 2024 میں ان کی حکومت کے خاتمے اور ان کے انڈیا میں سیاسی پناہ لینے کے بعد۔ تاہم، کچھ حالیہ پیش رفت، جیسے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے رہنما قیصر کمال کا یہ بیان کہ وہ انڈیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کا موقف شاید نرم ہو رہا ہے۔
بنگلہ دیش مختلف وجوہات کی وجہ سے زبردست دباؤ میں ہے جیسے کہ امریکہ کی طرف سے ٹیرف دباؤ، مشرق وسطیٰ میں بحران، پڑوسی ملک میانمار کی صورت حال۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی طرف سے 1,000 کلو آموں کے ڈبے اس ہفتے نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پہنچے۔
بنگلہ دیش حکومت کے سربراہ محمد یونس کی طرف سے آموں کا یہ تحفہ بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ ’تلخ‘ تعلقات میں کچھ ’مٹھاس‘ ڈالنے کی کوشش ہے۔
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ بھی ہر سال گرمی کے موسم میں مودی کو آم بھیجتی تھیں۔
دنیا میں آم برآمد کرنے والے تین بڑے ممالک بالترتیب انڈیا، میکسیکو اور پاکستان ہیں۔بنگلہ دیش بھی اس فہرست میں ٹاپ ٹین میں شامل ہے
سنہ 1981 میں پاکستانی صدر ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو آموں کا ایک ڈبہ بھیجا جسے پاکستان میں ’انور رٹول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔سنہ 2008 میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے بھی انڈین وزیراعظم من موہن سنگھ کو آموں کا ایک ڈبہ تحفے میں دیا تھا۔
سات سال بعد 2015 میں اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی، اس وقت کے صدر پرناب مکھرجی اور اپوزیشن لیڈر سونیا گاندھی کو آموں کی ٹوکریاں بھیجی تھیں.
انڈیا میں آم کی تقریباً 1200 اقسام کاشت کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں تقریباً 400 اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح انڈیا میں آم کی پیداوار بھی بہت زیادہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں