شاہی ریاست ماناودر

جب ہندوستان نے پاکستان سے الحاق کرنے والی شاہی ریاست پر قبضہ کر لیا

برصغیر کی تقسیم صرف دو ممالک، ہندوستان اور پاکستان کے قیام کی کہانی نہیں، بلکہ سینکڑوں ریاستوں کے سیاسی مستقبل، عوامی امنگوں، اور نوآبادیاتی وراثتوں سے جڑا ایک پیچیدہ اور جذباتی معاملہ ہے۔ انہی میں سے ایک ہے شاہی ریاست ’ماناودر‘، جو آج بھی ایک دلچسپ اور نسبتاً کم معروف تاریخی تنازع کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔
ریاست ’ماناودر‘ کے آخری حکمران نواب غلام معین الدین خان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کو نہ مانتے ہوئے 22 اکتوبر 1947 کی غبار آلود صبح، دھول اڑاتے انڈین فوجی قافلے اس ریاست میں داخل ہو گئے اور دوپہر تک یہ چھوٹی سی شاہی ریاست انڈیا کے زیرِانتظام آ چکی تھی۔
جب 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا تو جولائی 1947 کے ’انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ‘ کے تحت ان شاہی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔
ایک مسلم نواب کی زیرِ حکومت یہ ہندو اکثریتی ریاست تین اطراف سے انڈیا میں گھری ہوئی تھی اور اس کا واحد کھلا راستہ بحیرہ عرب کی جانب تھا
1947 میں آزادی کے وقت نواب آف ماناودر نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا —نواب نے اپنے فیصلے کو پاکستان کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے مطلع کیا، اور پاکستان نے اسے قبول بھی کر لیا۔ جو اس وقت غیر معمولی قدم سمجھا گیا
کیونکہ:
ماناودر کی جغرافیائی حدود پاکستان سے نہیں ملتی تھیں
ریاست بھارت کے وسط میں گھری ہوئی تھی
اکثریتی آبادی بھارت سے الحاق چاہتی تھی.
بھارتی قیادت اس فیصلے کو جغرافیائی غیر عملی اور سیاسی اشتعال انگیزی سمجھتی تھی۔ بھارت نے
فوجی کارروائی کرتے ہوئے ریاست پر قبضہ کر لیا،
نواب کو گرفتار کر لیا،
ریاست کو ہندوستانی یونین میں ضم کر دیا.

جب نواب (جونا گڑھ) نے پاکستان سے الحاق کیا تو انڈیا نے جوناگڑھ کی معاشی ناکہ بندی کر دی.
بانی پاکستان محمد علی جناح نے ان اقدامات پر سخت احتجاج کیا لیکن انڈیا نے جونا گڑھ کے الحاق کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دے کر موقف سخت کر لیا۔
پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں شکایت بھی درج کرائی
مگر مسئلہ کشمیر پر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر زیادہ اہمیت حاصل نہ کر سکا
آج بھی ماناودر پاکستان کے سرکاری نقشوں میں ایک متنازع علاقہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں