حالیہ برسوں میں اکنامکس اور نیورو اکنامکس کے شعبے میں ہونے والی تحقیق اور مطالعے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے حالات جن میں ہم غیر معقول فیصلے کرتے ہیں یہ اکثر ہماری مالی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
لیکن اس حوالے سے ہماری سب سے عام مالی غلطیاں کون سی ہیں اور کیسے ہم اپنے ‘دماغ’ کے جھانسے میں آنے سے بچ سکتے ہیں؟
اس کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کن عادتوں کو اپنا کر اس سے بچ سکتے ہیں۔فاؤنڈیشن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریشن آف برازیل میں نیور سائنس اور نیور اکنامکس کے مضامین کی کورڈینٹر پروفیسر ریناتا تاویروس کا کہنا ہے کہ ‘روایتی معاشیات نے طویل عرصے سے انسان کو منطقی، سرد اور معروضی سمجھا ہے اور جو اپنی فلاح و بہبود ، اپنے معاشی فائدے اور اپنے مفاد کو زیادہ سے زیادہ بہتر کرنا چاہے گا۔’لاشعوری طور پر فیصلہ سازی کو جو منطقی طور پر نہیں ہوتی،ایک خرابی سمجھا جاتا ہے اور اس لیے یہ اس تحقیق کا حصہ نہیں بنتی۔
مگر 1970 کی دہائی کے آخر میں محقیقین کے ایک گروہ نے ان خرابیوں کو دیکھتے ہوئے ایک تحقیق کی جس نے معاشیات کے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔
جس کے بعد بہیوریل اکنامکس کے شعبے نے جنم لیا اور جس کے پیش کنندہ ایک ماہر نفسیات تھے، ماہر نفسیات، سنہ 2002 کے نوبیل انعام یافتہ ڈنیئل کہنمین۔
پروفیسر ریناتا وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘اس تحقیق نے اس بحث کو جنم دیا کہ ہمیں یہ احساس ہو سکے کہ کچھ اور عناصر بھی ہماری قوت فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ صرف فائدہ، اچھی صحت اور زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہی نہیں ہے۔’
1980 کی دہائی میں اس متعلق ایک اور تحقیق پر مزید کام کیا گیا۔ جس میں بیہوریل اکنامکس یعنی رویوں کے ساتھ منسلک معاشیات اور نیورو سائنس اور نیورو اکنامکس کی تکنیک کا استعمال کیا گیا۔
اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ انسان جب کسی غیر ضروری چیز کو خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے دماغ میں کیا ردعمل ہوتا ہے۔
پروفیسر ریناتا کا کہنا ہے کہ ‘اب ہمارے لیے اس بلیک باکس کو کھولنا ممکن ہے جسے ماہر معاشیات انسانی ذہنوں کے فیصلے کہتے ہیں۔ درحقیقت اگر آپ دیکھیں تو سمجھیں گے کہ کیا ہو رہا ہے جب کوئی انسان فیصلہ لینے لگتا ہے تو اس کے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔’
وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘جب آپ نیورو اکنامکس پڑھتے ہیں جس میں یہ خیال ہے کہ ہم اپنے رویوں ، فیصلہ سازی کو قابو کر سکتے ہیں اور جو ہم کرتے ہیں وہ ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ فیصلہ سازی کے محرکات منطقی، عقلی اور تجزیاتی نوعیت کے نہیں ہوتے۔ یہ فیصلے بہت حد تک جذبات کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ نیورو سائنسدان ایلوارو ماخادو دیاس کا کہنا ہے کہ ‘قدرت نے ہمیں محبت اور منطق دونوں چیزیں عطا کی ہیں اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ بیکار نہیں ہیں۔ جب آپ جذبات سے عاری ہو جاتے ہیں تو دوسروں کے لیے احساس نہیں رکھتے۔ ہمارے فیصلہ زیادہ خود غرض ہو جاتے ہیں اور یہ معاشرہ مجموعی طور پر تباہ حال ہو جاتا ہے۔’
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جذبات ہم سے سنگین غلطیاں کروا دیتے ہیں جو ہمیں یا تو پچھتاوے یا قرضوں میں دھکیل دیتی ہیں۔
اس لحاظ سے بیہوریل اکنامکس اور نیورو اکنامکس ہمارے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے کہ وہ ہمارے غیر منطقی فیصلوں کو حساب لگا لے اور ہم غلط فیصلے کرنے سے بچ جائیں۔جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں جب تک یہ جائزہ نہ لے سکیں کہ بعد میں پچھتاوا آپ کی پارٹی کو خراب نہ کریں۔ اپنے مستقبل کو بہتر انداز میں سمجھیں اور اپنی ضروریات اور تقاضوں کو سمجھیں۔ خود کو نہ کہنا ایک بچے کو انکار کرنے جیسا ہے، یہ مشکل ضرور ہے لیکن یہ مثبت ہے۔‘
ریناتا تیویروس کے مطابق اپنے اس طرح کے ردِعمل کو روکنے میں رکاوٹ درحقیقت ادائیگی کرنے کے آسان طریقوں میں اضافے کی وجہ سے بھی پیدا ہوئی ہے۔
ویب سائٹس پر استعمال ہونے والے کیو آر کوڈز اور کریڈٹ کارڈز اس کی مثال ہیں۔
اس کے علاوہ ڈوپامائن نامی اعصابی ہارمون جو کہ دماغ کو ‘انعام کا احساس’ دلاتا ہے وہ بھی اس میں مداخلت کرتا ہے۔
‘جب ڈوپامائن خون میں شامل ہوتا ہے تو اس سے ہمارا بلا سوچے سمجھے کام کرنے کا رویہ متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ آپ کو کچھ حاصل کرنے کی اُمید ملتی ہے۔ یہ دولت، صحت، لذت یا دوسروں کے سامنے ایک اچھا تاثر بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ جذباتی رویہ آپ میں فوراً یہ انعام حاصل کرنے کی لگن پیدا کر دیتا ہے۔’
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ خریداری کے مرحلے میں وہ طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جو اکثر گیمز میں ہوتے ہیں۔ یعنی خریداری کے کام کو ایک گیم میں بدل دیا گیا ہے۔
سپرمارکیٹس اور آن لائن شاپنگ ایپس خاص تعداد میں خریداری کر کر کے پوائنٹس تک پہنچنے کے بدلے میں انعامات مثلاً ڈسکاؤنٹس یا مفت چیزوں کا وعدہ کرتی ہیں۔نیورواکنامک مطالعوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم مستقبل کے لیے پیسے بچانے کے بارے میں سوچتے ہیں تو دماغ کے وہی حصے فعال ہوجاتے ہیں جو کسی اجنبی کو پیسے دینے کے خیال سے فعال ہو جاتے ہیں۔