سکیولینٹ اور کیکٹس

کیا سکیولینٹ اور کیکٹس جہنمی پودا ہے

کیا سکیولینٹ اور کیکٹس جہنمی پودا ہے؟

اور کیکٹس، سکولینٹ کے فائدے۔۔۔

تحریر: محمد قاسم سرویا۔۔۔ شیخوپورہ
#desigardening
کوئی بھی ڈنٹھل دار، برگ دار اور خار دار پودا جس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت عام پودوں سے زیادہ ہوتی ہے، اس کو ناگ پھنی، سوکھا پسند پودا، تھوہر، کیکٹس، سکیولینٹ، (رسیلا، رس بھرا، گودے والا) کریسولا یا صحرائی پودا کہتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کیکٹس، سیکولینٹس اور اس کی نسل کے تمام پودے “جہنمی پودے” ہیں اور ان سے گھر میں “مِس فارچون” یا بےبرکتی آتی ہے اور یہ کہ ان کو گھر میں نہیں لگانا اور رکھنا چاہیے۔

اللہ کے بندو اور بندیو۔۔۔! ایسا کچھ نہیں ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ پودے ہیں اور خوب صورتی اور آکسیجن کے لیے ان کو عام پودوں کی طرح گھر میں لگا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ کو ہم بدل تو نہیں سکتے لیکن اس بارے میں مولانا مفتی ابراہیم ڈیسائی صاحب اور اسماعیل ڈیسائی صاحب (دارالافتاء ڈربن) کا فتویٰ بھی دیکھیے۔

“بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیکٹس کے پودوں کو اپنے گھر میں رکھنے کی اجازت ہے۔ اس کا بد قسمتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خوش قسمتی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے واقع ہوتی ہے اور بدقسمتی بندے کے اعمال سے۔ اسلامی کتب میں ایسا کہیں ذکر نہیں ہے کہ کیکٹس یا اس کے نسل کے دیگر پودے دوزخ سے ہیں۔ قرآن پاک کی سورہ صآفات کی آیات 62 سے 64 میں زقوم کے درخت کا ذکر ہے، جو کہ کیکٹس کے پودے سے متعلق نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔”

مزید یہ بھی پڑھیے۔۔۔
فتوی نمبر: 5063
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
کیا کیکٹس پودے کو گھر میں لگا سکتے ہیں یا نہیں۔ کیا اس پودے کا جہنم سے کوئی تعلق ہے؟

الجواب حامدا ومصلیاً
“کیکٹس [ناگ پھن] ایک سخت جان پودا ہوتا ہے، صحرا میں اگتا ہے اور بہت سے جاندار اس پہ انحصار کرتے ہیں۔ جبکہ زقوم، جس کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے کہ وہ جہنم کا درخت ہے، وہ جہنم کی آگ سے ہی پیدا ہوتا ہے اور بڑھتا ہے۔ اگر اس کا ایک قطرہ بھی دنیا پہ گرے تو دنیا کو برباد کر دے۔ اُس کا کیکٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کو گھر میں لگانا اور اس سے نفع حاصل کرنا بالکل درست ہے۔”

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّـوْمِ (43)
بے شک زقوم کا درخت۔
طَعَامُ الْاَثِيْـمِ (44)
گناہگاروں کا کھانا ہے۔
(سورۃ الدخان)

سنن ترمذی 2585
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن الاعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قرا هذه الآية: اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة آل عمران آية 102 , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” لو ان قطرة من الزقوم قطرت في دار الدنيا لافسدت على اهل الدنيا معايشهم، فكيف بمن يكون طعامه ” , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح۔

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» ”تم اللہ سے ڈرنے کی طرح ڈرو اور مسلمان ہی رہتے ہوئے مرو“ (آل عمران: ۱۰۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر «زقوم» تھوہر کا ایک قطرہ بھی دنیا کی زمین میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی معیشت بگڑ جائے، بھلا اس آدمی کا کیا ہو گا جس کی غذا ہی «زقوم» ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

“دنیا کے زقوم اور جہنم کے زقوم میں زمین آسمان کا فرق ہے اور زقوم کے پھل میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے لہٰذا اس کا کھانا اور خرید و فروخت دونوں جائز ہیں۔”
{فتاوی حقانیہ:۶/۱۴۶}
واللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:/23/8/1440
عیسوی تاریخ: 28/4/2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

کیکٹس کی بہت ساری اقسام میں تھوہر (یا تھوہڑ) اور ناگ پھَنی بہت مشہور ہیں۔ تھوہر اسم مذکر ہے۔ یہ کیکٹس یعنی صحرائی یا جنگلی پودوں / درختوں میں شامل ایک زہریلا، دودھ جیسا مواد خارج کرنے والا درخت اور پودا ہے۔
ہم نے اسکول کے زمانے میں اس کی دو قسموں کے نام یوں پڑھے تھے: ڈنڈا تھوہر اور پتھر تھوہر یا چھتر تھوہر۔ ان کی شکل ہی کی مناسبت سے یہ نام تجویز کیے گئے ہوں گے۔ اسی درخت کی ایک قسم ’ناگ پھنی’ کہلاتی ہے، کیوں کہ اس کے پتے، ناگ کے پھن سے مشابہہ ہوتے ہیں۔

اسے طب یونانی میں کانٹا ہاری کے نام سے بھی موسوم کیا گیا، نیز ہندی میں اسے ناگ پھن اور ‘ہتھ تھوڑی’ کہا جاتا ہے۔ دیسی طریقہ علاج میں ناگ پھنی سینے کی جلن، قبض، استسقاء، جوڑوں کے درد اور نمونیا کے علاج کے ساتھ مانع حمل کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ خواتین کی تزئین و آرائش کی بات ہو تو جاننے والے جانتے ہیں کہ ناگ پھنی سے بالوں اور چہرے کے حسن میں اضافے کے لیے بھی کئی نسخے تیار کیے جاتے ہیں۔

اس کی افادیت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس خاردار پودے کی لکڑی لگانے سے سانپ اور بچھو
جیسے مُوذی جانور، باغ یا پھُلواری میں داخل نہیں ہوتے۔ اس کا ایک اور نام طب میں زیادہ مشہور ہے۔۔۔ مارچوبہ (مار یعنی سانپ + چوب یعنی لکڑی=فارسی)۔

کیکٹس سے مماثل، ایک بہت مشہور اور مفید پودا کوار گندل یا گھیکوار ہے، جسے ان دنوں، پاکستان میں، مغربی نام ایلو ویرا سے زیادہ پکارا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کا کیکٹس ہے۔ گھیکوار کی دو سو چالیس سے زائد اقسام میں اکثر کو اسی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے، مگر علم نباتات کی رُو سے یہ غلط فہمی ہے۔
یہ درحقیقت زیر زمین موجود پانی سے ازخود سیراب ہونے والا پودا ہے، جسے واٹر سٹوریج پلانٹ اور سکیولینٹ کہتے ہیں۔ لہٰذا اس کے متعلق غلط فہمی کا پایا جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ بات یہیں نہیں رکتی، بلکہ ایسے کئی دیگر پودے دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں جنھیں عوام الناس کیکٹس سمجھتے اور کہتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کیکٹس اور گھیکوار دونوں ہی کا استعمال بطور آرائشی، نمائشی، فرمائشی اور ادویاتی پودا جات کے بھی کیا جاتا ہے۔

ایک اور ایسا پودا یوفوربیا ہے، جس کی مختلف اقسام میں بہت دل کش پھول لگتے ہیں، یہ بھی سہواً کیکٹس شمار ہونے لگا ہے۔ اس کی شاخوں میں باریک باریک کانٹے لگے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پودے بھی کیکٹس نہیں ہیں۔۔۔ لیکن خوب صورتی اور آرائش میں اپنی مثال آپ ہیں۔
آگاوے، آئس پلانٹ، ایچی ویریا، آئیونیئم، اینڈیم، سنے شیو، کریسولا، سیمپروی وم، کلانچوے، ہاوورتھیا، سیڈم، آکوٹِلو، یوکا، لیتھوپس، ڈائکیا، پیچی پوڈیم، ٹیلینڈسیا، برومی لیاڈ، سٹاپیلیا، سنسوویریا، بلب، آک، آکھ، اکو، یا کارلوٹروپس زیرو فائٹ اور نایاب رس بھرے پتوں والے پودے وغیرہ۔

لاہور کے حاجی امداد حسین کی نایاب اور بہت بڑی نرسری میں دنیا بھر کے کیکٹس اور سکولینٹس موجود ہیں جو انھوں نے زیادہ تر تھائی لینڈ سے منگوائے ہیں اور تھائی لینڈ اس وقت قیمتی پودوں کی صنعت کا بادشاہ ہے۔

مشہور رومن فلاسفر مارکس ٹولیئس نے ایک بار کہا تھا۔۔۔ “اگر آپ کے پاس ایک گارڈن اور ایک لائبریری ہے، تو آپ کے پاس ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔” جی ہاں! کیونکہ لائبریری آپ کے دماغ کو خوراک فراہم کرتی ہے اور فطرت آپ کی روح کو۔ آسانی سے پرورش پانے والے رسیلے لیکن خار دار پودوں (کیکٹس اور سکولینٹ) کو آپ اپنے گھر میں لگا کر فطرتی ماحول کو اپنے گھر میں۔۔۔ اپنے بالکل پاس لا سکتے ہیں۔ کیا ان پودوں کے کوئی فائدے بھی ہیں؟ جی ہاں بہت سے۔۔۔ آئیے کچھ یہ بھی دیکھ لیجیے۔

1۔ یہ ان ڈور پلانٹس ہیں اور کم کھاد اور کم پانی میں بھی پرورش پا جاتے ہیں۔
2۔ یہ ہر طرح کے موسم میں نمو پاتے رہتے ہیں۔
3۔ یہ آپ کے گھر میں نہ صرف سبزہ اور ہریالی لاتے ہیں بلکہ خاص موسم میں ان پر پھول بھی آتے اور دل لبھاتے ہیں۔
4۔ یہ ہوا کو صاف کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
5۔ یہ گھر کی نمی کو بہتر کرکے ٹھنڈک کا باعث بنتے ہیں۔
6۔ یہ ہلکے پھلکے زکام، گلے کی خرابی، خشک کھانسی اور جلد کی خراش دار خشکی کو بھی ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
7۔ یہ آپ کے ماحول میں تازہ آکسیجن کا اضافہ کرتے ہیں۔
8۔ دوسرے پودوں کے برعکس یہ رات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا نہیں کرتے۔
9۔ یہ آپ کے سانس کے نظام کو بہتر سے بہترین کرتے ہیں۔
10۔ آپ ان کو باتھ روم اور کچن میں بھی رکھ سکتے ہیں تاکہ تازگی برقرار رہے۔
11۔ یہ دماغی صلاحیتوں کو بڑھا کر اپنے کام میں “فوکس” کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
12۔ دیگر پودوں اور ان کی موجودگی میں ہماری ہلکی پھلکی “پین” رفوچکر ہو جاتی ہے۔
13۔ یہ ہارٹی کلچر تھراپی میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
14۔ ان کو مریض کے کمرے اور ہسپتالوں میں لگا کر “لیس پین میڈیکیشن” پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔
15۔ یہ 20 فیصد تک یادداشت کو بہتر کرنے کی خوبی رکھتے ہیں۔
16۔ مشیگن یونی کی تحقیق کے مطابق قدرتی ماحول میں رہنے اور تعلق بڑھانے مثلاً پارک میں چلنا، گھر میں پودے لگانا بلکہ صرف پھولوں کی تصاویر دیکھنے سے ہی ہماری صحت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
17۔ اپنی لائبریری، گھر، دفتر اور بچوں کے کمروں میں یہ پودے لگا کر ہم اپنی “ڈیلی پرفارمینس” بڑھا سکتے ہیں۔
18۔ یہ شاندر آرائشی و نمائشی نمونے ہیں اور من کو شانتی دیتے ہیں۔
19۔ ایک ہی کنٹینر میں بہت سے کیکٹس اور سکولینٹس لگائے جا سکتے ہیں۔
20۔ ان کی اچھی دیکھ بھال کریں تو یہ تنگ بھی نہیں کرتے۔
(اس مضمون کے تیاری میں جناب سہیل احمد صدیقی صاحب کے مضمون، بابا گوگل اور مختلف کتب سے مدد لی گئی۔)

اپنا تبصرہ لکھیں