سویا بین

سویا بین کی کاشت اور مشکلات

ہو سکتا ہے یہ بات آپ کے علم میں نہ ہو لیکن پاکستان میں کچھ کاشتکار ایسے بھی ہیں جو سویابین کی فصل بھی کاشت کرتے ہیں۔ پاکستان ہر سال 106 ارب روپے کا سویابین یا سویابین تیل درآمد کرتا ہے۔ اگر ہم سویا بین وسیع پیمانے پر کاشت کر لیں تو ہمارے قیمتی ڈالر بچ سکتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں کئی ایک مشکلات ہیں جن پر اس آرٹیکل میں تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن پر تحقیق کر کے ہم سویابین کی فصل کو پاکستان میں کامیاب بنا سکتے ہیں.
Article…
وطن عزیز ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانے کے تیل میں خود کفیل نہیں ہے. ہمارے ہاں جتنا بھی رایا، سرسوں، سورج مکھی، بنولہ یا برائے نام سویا بین وغیرہ پیدا ہوتا ہے وہ ملکی ضروریات کے لئے انتہائی ناکافی ہے. اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پاکستان باہر کے ملکوں سے کینولا، سورج مکھی اور سویا بین کی اجناس ڈالر دے کر خریدتا ہے جن سے تیل نکال کر ملکی ضروریات پوری کی جاتی ہیں. اجناس کے علاوہ بیجوں سے نکلا ہوا کینولا آئل، سورج مکھی آئل، سویا بین آئل اور پام آئل کی ایک بھاری مقدار بھی باہر سے منگوائی جاتی ہے.
پاکستان کل ملا کر سالانہ 388 ارب روپیہ تیلدار اجناس سے متعلقہ درآمد پر خرچ کرتا ہے جس میں سے 106 ارب روپیہ براہ راست سویا بین سے متعلق ہے.
سویابین کی درآمد میں پولٹری صنعت کی دلچسپی بہت زیادہ ہے جو سویا بین کھل کو پولٹری فیڈ بنانے میں استعمال کرتی ہے. پولٹری انڈسٹری سویابین کو پروٹین کے ایک سستے ذریعے کے طور پر استعمال کرتی ہے.
اگر دیکھا جائے تو سویا بین کے بیجوں میں پروٹین کی مقدار 40 فیصد سے زائد ہوتی ہے. جبکہ رایا یا سرسوں کے بیج میں یہ مقدار کوئی 20 فیصد کے لگ بھگ ہے. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فرق بہت زیادہ ہے.
لیکن اگر کھل کے حوالے سے دیکھا جائے تو فرق اتنا زیادہ نہیں ہے. سویابین کھل میں پروٹین کی مقدار کوئی 44 فیصد جبکہ رایا یا سرسوں میں پروٹین کی مقدار 36 فیصد کے قریب ہے.
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رایا یا سرسوں کی کھل کو ممکنہ طور پر مرغیوں کی خوراک میں استعمال کرنے کے واضح امکانات موجود ہیں لیکن اس میں ایک مسئلہ ہے. مسئلہ یہ ہے کہ عام رایا اورعام سرسوں کی کھل میں ایک خاص مرکب گلوکوسائینولیٹ پایا جاتا ہے. اگر جانوروں کو گلوکوسائینولیٹ والی کھل کھلائی جائے تو اس سے جانور کے پیٹ میں گیس پیدا ہو جاتی ہے اور جانور بد ہضمی کا شکار ہو جاتا ہے. لہذا ہو سکتا ہے کہ عام رایا اور سرسوں کی کھل کو پولٹری فیڈ میں استعمال کرنے سے فیڈ کی افادیت کم ہو جائے. البتہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ کینولا رایا یا کینولا سرسوں میں یہ مرکب یعنی گلوکو سائینولیٹ نہ ہونے کے برابر ہے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ پولٹری فیڈ میں کینولا کھل کو استعمال کرنے کے واضح امکانات موجود ہیں.
مجھے نہیں معلوم کہ اس ضمن میں کوئی تحقیقی پیش رفت ہو رہی ہے یا نہیں. لیکن اگر ہم کینولا کھل کو پولٹری فیڈ میں استعمال کرنا شروع کر دیں تو اس سے کینولا کی قیمتوں میں یقینی اضافہ ہو گا جس سے ایک طرف تو کاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ ہو گا اور دوسری طرف سویابین درآمد کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی جس سے قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جا سکے گا.
فی الحال پاکستان میں زیادہ بڑے رقبے پر عام رایا اور عام سرسوں ہی کاشت کی جا رہی ہے. لیکن جب مارکیٹ میں کینولا رایا یا کینولا سرسوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی تو پھر دو چار سال میں ہی کاشتکار عام رایا اور عام سرسوں کو چھوڑ کر کینولا رایا اور کینولا سرسوں اگانا شروع کر دیں گے. اور کینولا ہمارے ملک کی تیل اور پولٹری فیڈ کے لئے درکار کھل کی ضروریات، دونوں کو پورا کر سکتا ہے.
لیکن اگر پولٹری صنعت کینولا کھل کو سویابین کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے تب تک ہمیں اپنا قیمتی زر مبادلہ خرچ کرتے رہنا پڑے گا جب تک ہم سویا بین اگانے میں خود کفیل نہیں ہو جاتے.

دنیا میں سب سے زیادہ سویا بین امریکہ میں پیدا ہوتا ہے. اس کے بعد برازیل اور پھر چائنہ کا نمبر ہے. کچھ نہ کچھ سویا بین انڈیا میں بھی پیدا ہوتا ہے.
پاکستان میں سویا بین کی فصل پر تحقیق کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا. سن 1983 سے لے کر 1996 تک تحقیقی اداروں نے سویابین کی 9 سے زائد ورائٹیاں بنائیں. لیکن ان سب ورائٹیوں کا مشترکہ مسئلہ ایک ہی ہے کہ باقی دنیا کے مقابلے میں ان کی پیداوار بہت کم ہے.
اگر دیکھا جائے تو امریکہ میں سویابین کی اوسط پیداوار 32 من فی ایکڑ ہے. برازیل میں 30 من فی ایکڑ جبکہ چائنہ میں اوسط پیداوار 18 من فی ایکڑ ہے. لیکن اگر پاکستان میں سویا بین کی اوسط پیداوار کو دیکھا جائے تو وہ محض ساڑھے 7 من فی ایکڑ ہے.
سویابین کی کاشت پر فی ایکڑ 30 ہزار روپے سے زائد خرچ ہو جاتا ہے. اگر ساڑھے سات من سویابین 4 ہزار روپے فی من کے حساب سے فروخت ہو تو کسان کے بمشکل پیسے ہی پورے ہوتے ہیں. اور یوں بھی سویابین 4 ہزار روپے فی من کے حساب سے فروخت نہیں ہو سکتا کیونکہ عالمی منڈی میں اس کا ریٹ کم ہے. آج کل عالمی منڈی میں سویابین کا فی من ریٹ 2000 سے 2500 روپے فی من ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک زیادہ پیداوار والی ورائٹیاں سامنے نہیں آتیں، سویابین کا مستقبل روشن نہیں ہے.
ہمارے ہاں کم پیداوار کی بنیادی وجہ خطے کا زیادہ درجہ حرارت اور کم بارشیں ہیں. اگر درجہ حرارت 15 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے تو سویا بین کی فصل خوب پھلتی پھولتی ہے. لیکن پاکستان خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے. پاکستان کے وہ علاقے جہاں درجہ حرارت کم ہے وہاں قابل کاشت رقبہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ ہم وسیع پیمانے پر سویا بین کی فصل کاشت کر سکیں.
لہذا اگر ہم سویا بین کی زیادہ پیداوار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کرنے والی ایسی ورائٹیاں تیار کر لیں جو اچھی پیداوار کی حامل ہوں.
خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے محققین بھر پور کوششیں کر رہے ہیں. اگر شعبہ تیلدا اجناس ایوب ریسرچ کی بات کی جائے تو ان کی سب سے بہتر ورائٹی فیصل سویابین کے نام سے دستیاب ہے جو زیادہ سے زیادہ 18 من فی ایکڑ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے. لیکن دیکھنا یہ ہے کہ فیصل سویابین جب کسان کاشت کرے گا تو اس وقت اس کی اوسط پیداوار کیا آتی ہے.
پچھلے چند سالوں میں سویابین کی کوئی 200 سے زائد ورائٹیوں کی چھان بین کر کے ایوب ریسرچ کے سائنس دان ایک ایسی نئی ورائٹی تیار کرنے کے قریب ہیں جس کی پیداوار فیصل سویابین سے بھی زیادہ ہے. اس سلسلے میں شعبہ تیلدار اجناس کے سربراہ جناب محمد آفتاب اور سویابین پر تحقیق کرنے والی ٹیم جناب عبدالقیوم، محترمہ سحرش سرور اور محترمہ غزالہ کی کاوشوں کو سراہا جانا چاہئے.
لیکن مکمل کامیابی کے لئے ہمیں زیادہ محنت کرنا ہو گی اور کسی ایسی ورائٹی تک پہنچنا ہو گا جس کی پیداواری صلاحیت کم از کم 30 من سے زیادہ ہو.
مجھے امید ہے کہ ہمارے سائنس دان اللہ کے فضل و کرم سے اس میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے.
پنجاب میں آج کل سویا بین کی کاشت کا وقت 21 جولائی سے لیکر 15 اگست تک تجویز کیا گیا ہے. لیکن وقت کاشت کے حوالے سے اس بات کا امکان موجود ہے کہ سویابین ستمبر اور جنوری کے درمیانی مہینوں میں کسی بھی وقت کاشت کیا جا سکے. اس حوالے سے تجربات جاری ہیں. اگر سویا بین کی کاشت کے حوالے سے یہ سہولت پیدا ہو جائے کہ اسے پانچ مہینوں میں کسی بھی وقت کاشت کیا جا سکے تو پھر اس کو دو فصلوں کے درمیانی وقفے میں کاشت کرنے کے واضح امکانات پیدا ہو جائیں گے. چونکہ سویابین 90 سے 100 دن کی فصل ہے اس لئے درمیانی فصل کے طور پر اسے کامیابی سے کاشت کیا جا سکتا ہے. اگر سویا بین کو دو فصلوں کے درمیانی وقفے میں کاشت کرنے کا سلسلہ چل نکلا تو اس سے کاشتکار اپنی زمینوں سے دو کی بجائے تین فصلیں حاصل کر سکیں گے جس سے ہمیں سویا بین بھی باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا اور کسانوں کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا.
سویابین کی کامیابی کا ایک اور پہلو اس کی انٹر کراپنگ میں پوشیدہ ہے. سویابین کے پودے کا قد ایک سے ڈیڑھ فٹ تک رہتا ہے لہذا گنا، مکئی اور اسی طرح کی دیگر فصلوں میں سویا بین کی انٹر کراپنگ کے امکانات کو تلاش کیا جا سکتا ہے. اس سلسلے میں کچھ تجربات ہوئے بھی ہیں. اسی طرح کے مزید تجربات کو آگے بڑھایا جانا چاہئے. اکیلی فصل کی بجائے کسی دوسری فصل میں انٹر کراپنگ کے طور پر کاشت کی صورت میں سویا بین کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں.

اپنا تبصرہ لکھیں