چائے

مختلف اقسام کی چائے اور فوائد

مختلف اقسام کی چائے

پاکستان میں سردی آۓ اور ہر گھر میں چاۓ کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو یہ ممکن نہیں اسی وجہ سے ہم چائے در آمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہیں اور یہاں ہر گھر میں دن میں کئی مرتبہ چائے پینا اب ایک عادت بن گئی ہے۔ چاۓ پاکستانیوں کے خون میں رچ بس گئی ہے
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں سالانہ 60 سے 70 میٹرک ٹن چائے درآمد کی جاتی ہے۔ چاۓ کی پتی میں قدرتی طور پر کیفین موجود ہے اور کیفین کا چائے یا کسی بھی شکل میں بہت زیادہ استعمال ذہنی بے چینی، بے قراری، بے سکونی اور تناﺅ کا باعث بن سکتا ہے۔ چائے کے ایک کپ میں اوسطاً 11 سے 61 ملی گرام کیفین ہوسکتی ہے تو کیوں نا اس چاۓ کی چُھٹی کروائی جاۓ اور پھلوں اور جڑی بوٹیوں سے بنی ہوئی چائے نوش کی جائے اسکے طبی فوائد لازماً حاصل ہونگے
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

سیب کے چھلکے کی چائے
سیب کے چھلکے جنہیں ہم ضائع کر دیتے ہیں۔ ان میں بھی قدرت نے غذائیت، لذت اور بے شمار فوائد رکھے ہیں۔ ان کو تازہ یا خشک شدہ لے کر حسب دستور کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کر چائے تیار کریں۔ اگر دودھ اور چینی کی بجائے شہد اور لیموں کا رس ملا کر نوش فرمائیں تو اور بھی مفید ہے۔ جسمانی طور پر کمزور افراد اور بوڑھوں کے لیے حد درجہ صحت بخش ہے, پیٹ کی خرابی اور ٹائیفائیڈ کی کمزوری دور کرنے کے لیے اوولٹین سے بڑھ کر ہے۔ جوڑوں کا درد رفع کرنے کے لیے اس کا مسلسل استعمال نہایت مفید ہے۔

آم کے پتوں کی چائے

آم کے پتے سایہ میں خشک کر کے بطور چائے استعمال کریں۔ دودھ اور چینی بھی شامل کریں۔ نزلہ، زکام، ضعفِ دماغ، کھانسی، ہچکی، خونی بواسیر، سل، لیکوریا اور کثرت حیض کے لیے شافی ہے۔ پیچش، دشت اور سنگرہنی میں بھی دودھ ملائے استعمال میں لائیں۔

بادام کی چائے

میرے ایک دوست نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا جس کے استعمال سے انہیں تبخیر معدہ اور عینک دونوں سے نجات مل گئی۔ صبح شام چائے بناتے وقت بجائے دودھ کے اکیس عدد باداموں کو پانی میں پیس کر اس میں شامل کریں۔ سرد مزاج والے چینی کی بجائے شہد کا اضافہ کر لیں اور حسب دستور چائے بنا کر استعمال کریں۔ غذا کی غذا اور دوا کی دوا۔

لیموں کی چائے

یورپ اور امریکہ میں عرصۂ دراز سے عام چائے میں دودھ کی بجائے لیموں اور برف ڈال کر پینے کا رواج ہے۔ اعصابی کمزوری کے لیے یہ بے حد مفید ہے۔ اگر برف ڈالے بغیر چائے میں لیموں نچوڑ کر گرم گرم مریض کو پلا دیں تو ان شاء اللہ درد سر فوری طور پر دور ہو گا۔

ادرک کی چاۓ
موسم سرما میں سخت سردی کا مقابلہ ادرک کی چائے سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ ادرک وٹامن سی، میگنیشیئم اور دوسرے معدنیات سے بھرپور ہونے کے باعث صحت کے لیے بہت مفید ہے۔
چائے بنا لینے کے بعد اس میں کالی مرچ، شہد اور لیموں شامل کرکے ادرک کے ذائقے کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ادرک کی چائے پینے کے متعدد فوائد ہیں جو کئی بیماریوں سے بچاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔

سونف کی چائے

نزلہ، زکام اور نظر کی کمزوری کے لیے سونف کی چائے بڑی عجیب چیز ہے۔ ایک تولہ سونف کو آدھ سیر پانی میں جوش دیں جب چوتھا حصہ پانی باقی رہ جائے تو چھان کر چینی آمیز کر کے صبح شام ایک ایک کپ پئیں۔ اگر اس میں ۳، ۴ لونگ ڈال لیں تو اور بھی مفید ہے

ہلدی کی چاۓ

ہلدی 1 چاے کا چمچ
دودھ 1 گلاس یا کپ
شہد یا چینی مصری حسب ذائقہ
دودھ ابال کر ہلدی مکس کر لیں دو ابال دے کر مصری وغیرہ ملا کر پلائیں,
سوجن ورم کو دور کرتی ہے, انفیکشن پیپ اندرونی کا خاتمہ کرتی ہے, نزلہ زکام میں فائدہ مند ہے۔ وزن کم کرتی ہے, جلد خون کو صاف کرتی ہے, اندرونی زخم چوٹوں اور کینسر اور السر معدہ کیلیے مفید ہے,
ہلدی کی چاے پھوڑے پھنسی دور کرتی ہے

برگد کی چائے

برگد ایک ایسا درخت ہے جو صحیح طور پر چائے کا نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے ہم ملکی زرمبادلہ بچا سکتے ہیں۔ اس کے ہر جزو کو جوش دینے سے چائے جیسا رنگ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نرم نرم پتے جو سرخ رنگ کے ہوتے ہیں سایہ میں خشک کر کے کوٹ کر ڈبوں میں پیک کر کے تجارتی پیمانے پر فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ ۶ ماشہ یہ پتے آدھ سیر پانی میں جوش دیں جب آدھ پائو پانی باقی رہ جائے تو حسب دستور چینی اور دودھ شامل کر کے پئیں۔ نزلہ، زکام، کھانسی اور ضعف دماغ کے لیے بے حد مفید ہے۔ اگر برگد کے درخت کے چھلکے کو اس طرح خشک کر کے چینی کی بجائے نمک آمیز کر کے دن میں تین بار بطور چائے استعمال کرائیں تو ملیریا بخار دور ہو جاتا ہے۔ اس کی داڑھی کی چائے پیاس کی زیادتی، گرمی سے ہونے والے بخار، سن سٹروک، نزلہ، زکام اور مردوں کی تمام امراض کے لیے بے حد کار آمد ہے۔
ایک صاحب نے بیان کیا کہ جب سے میں نے برگد کی چائے کا استعمال شروع کیا ہے تب سے ہر مرض سے محفوظ و مامون ہوں۔

کیکر کی چائے

کیکر کے درخت کی چھال اتار کر سایہ میں خشک کریں اور بوقت ضرورت آدھ سیر پانی میں ڈال کر جوش دیں جب چوتھا حصہ رہ جائے تو صرف چینی شامل کر کے صبح شام گرم گرم پئیں۔ چند روز کے استعمال سے پرانی سے پرانی کھانسی رفع ہو گی۔ اگر کیکر کی گوند چھ ماشہ پانی میں جوش دے کر ذرا سرد ہونے پر چینی ملا کر چائے کی طرح گھونٹ گھونٹ پئیں تو پیچش رفع کرنے کے لیے اکسیر ہے۔

پیپل کی چائے

پیپل کے درخت کی چھال، نرم پتے یا کونپلیں بطور چائے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کو تازہ یا خشک کر کے رکھ لیں اور جو چیز بھی میسر ہو ۴ ماشہ لے کر پاؤ بھر پانی میں جوش دیں۔ آدھا پانی خشک ہونے کے بعد کھانڈ اور دودھ ملا کر بطور چائے استعمال کریں۔ حافظہ کی کمزوری، نسیان اور ضعفِ دماغ کے لیے بے حد مفید ہے۔ خاص طور پر اساتذہ، طلبا، علماء، وکلاء، صحافیوں اور ادیبوں کے لیے کام کی چیز ہے۔

گل بنفشہ کی چائے

کھولتے ہوئے پانی کو آگ سے اتار کر چائے دانی میں ڈالیں جس میں ۲، ۳ ماشہ فی کپ کے حساب سے گل بنفشہ پہلے سے ڈال رکھا ہو۔ پانچ منٹ تک دم دے کر اسے چھان لیں اور اس میں حسب مرضی چینی اور گرم دودھ شامل کر کے پئیں۔ بلا دودھ بطور قہوہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ گل بنفشہ کو جوش دینے سے اس کے فوائد میں کمی آ جاتی ہے۔ اس لیے مندرجہ بالا طریقہ پر ہی تیار کرنا چاہیے۔ اس میں ذائقہ، خوشبو اور دل لبھانے والی رنگت، ہر چیز موجود ہے۔ بنا بریں دل اور دماغ کو فرحت بخشتی ہے۔ بھوک لگاتی ہے۔ قبض کشا ہے۔ نزلہ زکام، کھانسی، دمہ، ورم حلق، منہ اور زبان کے پکنے، خناق، پیشاب کی بندش، نیند کی کمی، نظر کی کمزوری اور ضعف دماغ وغیرہ کے لیے بہت اچھی دوا ہے۔

اس کے کچھ مدت کے استعمال سے چائے کی عادت بھی چھوڑی جا سکتی ہے۔ اس موقعہ پر ایک آپ بیتی بھی سن لیجئے۔ مارچ ۱۹۵۳ء میں اپنے ایک دوست سردار سید زمان خان مرحوم ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر کے گاؤں کلا بساند جانے کا اتفاق ہوا، جہاں آج کل اسلام آباد کا خوبصورت شہر واقع ہے ۔موسم کی تبدیلی کی وجہ سے جاتے ہی نزلے کی لپیٹ میں آ گیا۔ انہوں نے تازہ تازہ، اُودے اُودے پھول بنفشہ منگوا کر ان کا قہوہ تیار کیا اور اس کی ایک پیالی پلا دی۔ یقین جانیئے رات کو یہ خوش ذائقہ چائے پی کر لیٹا اور صبح بالکل تندرست تھا۔ اس کے بعد مزید تجربات ہوئے۔ گل بنفشہ میں برابر وزن گندم ملا کر بطور چائے استعمال کیا تو پرانے نزلہ و زکام کے لیے تیر بہدف علاج ثابت ہوا۔

گندم کی چائے

گندم اور اس کی بھوسی کی چائے سے کافی اور چائے کا اتنا اچھا کام لیا جا سکتا ہے کہ پھر ہمیں کسی چائے، کافی کو یا قہوہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سستی بھی، مفید بھی۔ خوش ذائقہ بھی اور چائے اور کافی کی مضرتوں سے سراسر پاک بھی۔ گندم کے چھلکے سے تیار ہونے والی چائے کے بارے میں مولانا محمد علی جوہرؒ نے فرمایا تھا اگر یہ نسخہ مجھے عالم جوانی میں میسر آ گیا ہوتا تو میں سرے سے بوڑھا ہی نہ ہوتا۔ گندم سے تیار ہونے والی کافی کا نسخہ مہاتما گاندھی نے اپنی سوانح میں تحریر کیا اور اسے اپنا معمول بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اچھی قسم کی گندم لے کر اسے آگ پر اس حد تک رکھیں کہ وہ سرخی مائل سیاہ ہو جائے۔ اسے اتار کر باریک پیس لیں اور بوقت ضرورت کھولتے ہوئے پانی میں کافی کی طرح ڈال کر کیتلی کو ذرا دیر دم دیں اور چینی ملا کر نوش فرمائیں۔ گندم کی چائے کے بارے میں طریقہ یہ ہے۔ ڈیڑھ پاؤ پانی میں نصف چھٹانک گندم کو جوش دیں۔ جب تیسرا حصہ پانی رہ جائے تو اس میں ایک ماشہ نمک ملا کر چھان کر گرم گرم بطور چائے پئیں۔ چند روز کے استعمال سے کھانسی دور ہو جائے گی۔ نزلہ زکام دفع ہو جائے گا اور اعصاب مضبوط ہو جائیں گے۔

کھجور کی چائے اور کافی

کھجور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیارے وطن کا تحفہ ہے۔ اسے بطور چائے ناشتہ کے وقت استعمال کر کے دیکھئے۔ یہ تمام مضرات سے پاک اور غذائیت سے بھرپور ہے۔ موسم سرما میں معمول بنا لیجئے۔ ماء اللحم اور وٹامنز کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ کھجور عمدہ قسم ۷ عدد لے کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کریں اور پیالہ بھر پانی میں ڈال کر آگ پر پانچ منٹ تک کھولائیے۔ بعد ازاں اتار کر اچھی طرح پھینٹ لیجئے اور دوبارہ جوش دے کر مناسب مقدار میں دودھ شامل کر کے نوش جان فرمائیے۔ اس کی گٹھلیوں کو بھی ضائع نہ کریں۔ وہ کافی کے لیے کام آ سکتی ہیں۔ گٹھلیوں کو لوہے کے تابہ پر رکھ کر نیچے آگ جلائیں اور کسی کھرچنے وغیرہ سے اُلٹتے جائیں۔ جب یہ جلنے کے قریب ہو جائیں تو اتار کر باریک پیس لیں اور بطور کافی استعمال کریں۔

السی کی چائے

اگرچہ اس چائے کو روزانہ پینے والی چائے کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا، البتہ اطباء نے اسے بعض امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے تجویز کیا ہے اور وہ نزلہ زکام کھانسی کے مریضوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہو گی۔ اگر اسے نیم گرم حالت میں پلایا جائے تو پہلی ہی خوراک سے پیشاب کی جلن میں تخفیف ہو گی۔ نسخہ تیاری یہ ہے۔

ایک تولہ السی لے کر ہاتھوں میں مل کر پھونک سے اس کی مٹی دور کریں اور اسے چائے دانی میں ڈال کر اوپر سے آدھ سیر ابلتا ہوا پانی ڈال کر ڈھانپ دیں اور پندرہ منٹ تک پڑا رہنے دیں۔ بعض ازاں حسب ضرورت چینی ڈال کر ایک کپ پئیں۔

پودینہ کی خوشبودار چائے

یہ نسخہ مجھے مولانا عبدالقادر صاحب گجراتی نے ۱۹۳۰ء میں عطا فرمایا تھا۔ اس کے چند روز کے مسلسل استعمال سے خون کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ پھوڑے پھنسی، خارش کو دور کرتی ہے اور چہرے کے رنگ و روپ کو نکھارتی ہے۔ ہیضہ اور پیٹ درد کے لیے بھی مفید ہے۔ پودینہ خشک پاؤبھر۔ مجیٹھ عمدہ پانچ تولہ۔ مرچ سیاہ ایک تولہ۔ تینوں کو کوٹ کر محفوظ کرلیں اور بوقت ضرورت ۳ ماشہ ایک کپ پانی میں ڈال کر پکائیں۔ جب رنگ حسب خواہش سرخ ہو جائے تو چینی اور دودھ ملا کر پی لیں۔

تلسی کی چائے

تلسی ایک ایسی بوٹی ہے جسے مجموعۂ اوصاف کہنا چاہیے۔ یہ خوش رنگ، خوش ذائقہ اور خوشبودار ہے اور تنہا یہ بوٹی بے شمار بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ اسی بنا پر ہندو لوگ اس کو ہر مندر میں رکھتے اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کے باقی فوائد کو چھوڑ کر ہم اس کی چائے کا تذکرہ کرتے ہیں جو ملیریا کے لیے تریاق ہے۔ اگر وباء کے دنوں میں تمام اہل خانہ تلسی کی چائے پئیں تو حافظ حقیقی کی مہربانی سے بخار کی وبا سے محفوظ رہیں گے۔ تلسی کی پتیاں حسب ضرورت سایہ میں خشک کر کے رکھ لیں بوقت ضرورت ایک ماشہ پتیاں فی پیالی کے حساب سے جوش دے کر اتار لیں اور پن چھان کر دودھ چینی شامل کر کے صبح و شام پئیں۔ اگر ملیریا کا حملہ ہو چکا ہو تو بخار اتارنے کے لیے تلسی کے ایک ماشہ خشک پتوں کے ساتھ گندم کا چھان چھ ماشہ، مرچ سیاہ پانچ عدد اور نمک ایک ماشہ ڈال کر جوش دیں اور چینی دودھ شامل کر کے گرم گرم پلائیں اور کپڑا اوڑھا دیں۔ بفضلہ پسینہ آ کر فوراً بخار اُتر جائے گا۔ تلسی میں قادرِ مطلق نے یہ خوبی بھی رکھی ہے کہ جہاں اس کی کاشت ہوتی ہے وہاں مچھر نہیں آتا۔

ناریل کی چاۓ

آج سے پہلے آپ نے ناریل کا تیل یا ناریل کے دودھ کے بارے میں سنا ہوگا مگر آج ہم کو بتا رہے ہیں ناریل کی سپیشل چائے جو ذائقے میں بھی بے مثال ہے اور فائدے بھی اتنے ہیں کہ آپ روزانہ اس چائے کو بنا کر پینا پسند کریں

٭ ایک کپ پانی ابالیں۔
٭ اس میں ایک چمچ گرین ٹی (یا سادی چائے کی پتی) ، تین چمچ ناریل کا دودھ اور ایک چمچ چینی (حسبِ ذائقہ) ڈال کر اچھی طرح پکا لیں۔
٭ لیجیئے تیار ہوگئی فوائد سے بھرپور ناریل کی چائے۔
فوائد:
٭ ناریل میں موجود سیلینیئم، سوڈیم، میگنیشیئم، فاسفورس، کیلشیئم، وٹامنز سی، ای، بی 1، بی 3، بی 5، اور بی 6 پائے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہمارے لیئے فائدے مند چائے ثابت ہوتی ہے

گورکھ پان کی چائے

گورکھ پان ایک مشہور بوٹی ہے جو برصغیر پاک و ہند میں تقریباً ہر علاقہ میں پائی جاتی ہے۔ یہ بوٹی زمین پر بچھی ہوتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور پیالی کی طرح گول چھوٹے چھوٹے سفید پھول، ذائقہ پھیکا اور بو سبز چائے سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ برسات کے موسم میں مینارِ پاکستان لاہور کے ارد گرد عام ہوتی ہے۔ اس کی چائے نظر کو تیز، خونی اور بادی بواسیر کو رفع کرتی ہے۔ جگر کی اصلاح کے لیے، صالح خون پیدا کرتی ہے اور فاسد خون کی اصلاح کر کے آتشک، کوڑھ، خنازیر اور سوزاک کو دور کرتی ہے۔ مقوی معدہ ہے، بھوک لگاتی ہے۔ پیشاب کی جلن دور کرتی ہے۔ بعض مردانہ امراض کا شرطیہ علاج ہے۔ تھکاوٹ دور کرنے کے لیے عام چائے کی نسبت بہت زیادہ مفید ہے۔ اگر چائے میں ہم وزن شامل کر کے پئیں تو چائے کے ضرر رساں اثرات کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ گورکھ پان کے پھول یا پتیاں تازہ یا خشک ۱ ت ۲ ماشہ فی پیالی کے حساب سے چائے دانی میں ڈالیں اور پانچ سات منٹ تک پانی کو جوش دیں۔ جب سرخی مائل رنگ جھلکنے لگے تو اتار لیں۔ موسم سرما میں اگر اس میں دارچینی، لونگ اور الائچی کلاں شامل کر لیں تو اور بھی مفید ہے۔ میرے شاگرد پنڈت کرشن کنوردت شرما مصنف ’’عرب کا چاند نے اس نسخہ کی بہت پبلسٹی کی تھی

ترپھلہ کی چائے
جولائی ۱۹۳۰ء میں وید دھجا رام نے اپنی زیر ادارت شائع ہونے والے طبی رسالے امرت پٹیالہ میں چائے کے مضر اثرات اور اس کے بدل کے طور پر ترپھلہ کی چائے پر ایک مضمون شائع کیا تھا جو ہندی زبان میں تھا اس کی تلخیص پیش خدمت ہے چائے پہلے پہل دل دماغ اور دیگر اعضائے جسمانی میں کسی قدر اکساہٹ پیدا کرتی ہے مگر جوں ہی اس کا اثر زائل ہوتا ہے تمام اعضاء بالکل سست پڑ جاتے ہیں.

یہاں تک کہ چائے کا عادی انسان بار بار چائے پی کر ہی کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس موقعہ پر چائے کے صرف ایک بدل کا ذکر کرنے لگا ہوں جو چائے سے بدرجہا بہتر ہے۔ میری مراد ترپھلہ سے ہے۔ ترپھلہ کے معنی ہیں تین پھل یعنی ہرڑ، بہیڑہ، اور آملہ۔ ان تینوں دواؤں کو آیورویدک کے عالم رسائن کا درجہ دیتے ہیں یعنی ہر مرض کا تریاق۔ اس کے استعمال سے دائمی قبض، بدہضمی، کھٹے مٹھے ڈکار آنا، دائمی نزالہ، دائمی سر درد، پیٹ میں ہوا بھرنا، تبخیر معدہ، نیند نہ آنا، کھانسی، ابتدائی دمہ، اونچا سننا، دماغ اور آنکھوں کی کمزوری، خونی اور ابدی بواسیر، آنتوں کا دق، ہسٹیریا، پاگل پن، وسواس، وہم، جنون، گردہ، تلی اور جگر کے امراض۔ گردہ اور مثانہ کی پتھری، ان سب بیماریوں کے لیے اکیلی یہ چائے مفید ہے۔ علاوہ ازیں بالوں کو قبل از وقت سفید ہونے سے بھی روکتی ہے۔ بحالت تندرستی اس کا استعمال بہت ساری وبائی بیماریوں سے بچائے رکھتے ہے خصوصاً وبائی نزلہ انفلوئنزا اور ملیریا کی وبا کے دنوں میں اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ نیز وہ لوگ جو کسی نشہ کے عادی ہوں مثلاً بھنگ، چرس، افیون وغیرہ۔ اس چائے کے عوض ان بد عادتوں سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اگر آدمی وطن چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہو اور وہاں کی آب و ہوا موافق نہ ہو تو اس چائے کے پینے سے وہاں کی آب و ہوا راس آ جائے گی۔ نسخہ درج ذیل ہے۔ ہرڑ، بہیڑہ، آملہ کا چھلکا برابر برابرلے کر موٹا موٹا کوٹ لیں اور بوقت ضرورت اس میں سے چھ ماشہ لے کر آدھ سیر پانی میں پکائیں۔ جب آدھا پانی باقی رہ جائے تو چھان کر تھوڑا سا دیسی گھی کڑکڑا کر لونگ یا زیرہ سیاہ کا بگھار دے کر چائے میں ڈالیں اور بقدر ضرورت نمک ملا کر چائے کی طرح نوش کریں۔ موسم گرما ہو تو چھ ماشہ سفوف ترپھلہ مٹی کے کورے کوزے میں ڈال کر آدھ سیر پانی میں بھگو کر رات پڑا رہنے دیں۔ صبح اس کو آگ پر دو چار جوش دے کر اتار لیں اور پن چھان کر نمک شامل کر کے پئیں۔

انفلوئنزا کے لیے ایک بیش بہا چائے

میرے بدوِ شعور میں جبکہ میری عمر بمشکل بارہ تیرہ سال تھی یہ بیماری وباء کے طور پر پھیلی۔ غالباً ۱۹۱۶ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں مدرسہ خیر العلوم سرسہ ضلع حصار میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے ہمیں رخصت دے دی گئی۔ اپنے گاؤں روڑی پہنچا تو گھر کے گھر اوندھے پڑے تھے۔ اور یہ خدا کی عجیب مصلحت تھی کہ ہر گھر میں ایک دو آدمی اس موذی مرض سے بچے ہوئے تھے جو تمام گھر والوں کی تیماری داری کرتے تھے۔ چنانچہ ہمارے گھر میں صرف والد بزرگوار تندرست تھے جو گھر میں صاح ب فرش مریضوں کی خبر گیری اور دارو درمن کر رہے تھے۔ مرض کا حملہ اس شدت کا تھا کہ ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں بھی روزانہ دسیوں اموات ہو جاتی تھیں۔ اس کے بعد متعدد مرتبہ اس مرض کا حملہ ہوا، مگر اب یہ جن کافی حد تک قابو میں آ گیا ہے۔ اس مرض کو زیر دام لانے کے لیے جو تدابیر کارگر ثابت ہوئیں۔ ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک نسخہ بیان کیے جانے کے قابل ہے جو دورہ مرض میں بفضل ایزدی مفید ثابت ہوا ہے۔ اور وبا کے زمانہ میں اگر تندرست افراد کو یہ چائے صبح شام پلائی جائے تو وہ اس کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ چائے بدمزہ ہرگز نہیں بلکہ بے حد لذیذ اور پسندیدہ مشروب ہے۔

سبز چائے کی پتی ۳ ماشہ، سونف رومی (انیسوں) ۶ ماشہ، الائچی خورد سبز ۳ عدد، دار چینی ایک ماشہ، ان چیزوں کو معمولی سا کوٹ لیں اورپاؤ بھر پانی میں جوش دیں۔ تین چار جوش آنے کے بعد اسے خوب پھینٹ کر رنگ نکالیں اور چھان کر قدرے چینی آمیز کر کے بلا دودھ ملائے قہوہ کے طور پر صبح و شام پئیں۔ ان شاء اللہ حالت مرض میں بھی مفید ثابت ہو گی اور مرض کے حملہ سے محفوظ و مامون رہنے کے لیے تندرست اشخاص کو پلایا کریں۔

دمہ کے لیے خصوصی چائے

اطباء کی ایک مجلس میں چائے کے نعم البدل کے طور پر اپنی تحقیقات کا ذکر کیا تو حاضرین میں سے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ لاہور میں ایک صاحب دمہ کا شرطیہ علاج چائے سے کرتے ہیں مگر اس احتیاط سے کہ چائے کے اجزاء کو اخفاء میں رکھ کر اپنے ہاتھ سے چائے تیار کرتے ہیں اور مریض کو کہتے ہیں کہ ۴۰ روز تک روزانہ آ کر چائے پیو۔ نہ وہ کسی کو نسخہ بتاتے ہیں اور نہ بنا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ نسخہ موثر ہے اس لیے خود ان کے ہاں جاتے ہیں اور چائے کی چسکیاں لے کر آتے ہیں۔ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر نسخہ ہاتھ آ گیا جو پیش خدمت ہے۔

برگد کی داڑھی سوا تولہ، سونف چھ ماشہ، عام چائے پانچ ماشہ، مرچ سیاہ چار عدد۔ برگد کی داڑھی کو کوٹ کر باقی چیزیں شامل کر کے چائے کی طرح پکائیں اور دو کپ چائے بنا کر آمیز کر کے سوا ماہ تک روزانہ استعمال کریں۔ ان شاء اللہ دمہ جڑ سے اکھڑ جائے گا۔

مقوی بدن چائے

اس چائے کا نسخہ ہمیں ایک بہت پرانے رسالے ماہنامہ ’’تجارت‘‘ شاہ جہان پور کے دسمبر ۱۹۱۹ء کے ایک خاص شمارہ سے حاصل ہوا۔ اس میں تجارت کے خاص خاص گر اور تجارتی نسخہ جات درج تھے۔

چائے کے ہم وزن دارچینی کا سفوف شامل کر لیں اور اس مقوی چائے کی تجارت کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس چائے کے استعمال سے پورے بدن کو طاقت حاصل ہو گی ، خاص طور پر مردانہ قوت میں اچھا خاصا اضافہ ہو گا۔‘‘ میری رائے میں یہ چائے مذکورہ بالا فوائد کے علاوہ مقوی معدہ ہے۔ آواز کو سریلا کرتی ہے اور نزلہ و زکام کے لیے مفید ہے۔ گرم مزاج والے افراد اس میں دودھ زیادہ مقدار میں شامل کریں
ہلدی کے پتوں کی چاۓ
ماہرین کے مطابق ہلدی کی چاۓ میں متعدد بیماریوں کا علاج موجود ہے جس میں جوڑوں کا درد، ہائی بلڈ پریشر کا متوازن رہنا، کینسر کے خلیات کی افزائش کی روک تھام میں مدد کرنا، سوزش سے نجات، ذہنی دباؤمیں آرام اور متاثرہ پٹھوں کی بحالی شامل ہے، اس سب کے ساتھ ہلدی رنگت کو نکھارتی ہے, اسے کئی طرح سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے کہ جیسے کہ پکوان، سلاد، دودھ , قہوہ اور چٹنیوں وغیرہ میں

قبل از وقت بڑھاپے سے بچنے کے لیے ایک بہترین چائے

جن بچوں یا نوجوانوں کے عین عالم طفولیت یا عالم شباب میں بال سفید ہونے لگیں ان کے لیے اس چائے سے بہتر شاید ہی کوئی اور دوا ہو۔ ان شاء اللہ قبل از وقت ہونے والے سفید بال نکلنا بند ہو جائیں گے اور تین ماہ کے مسلسل استعمال سے سفید بال بھی پھر سے سیاہ ہونے لگیں گے۔ علاوہ ازیں قوت حافظہ میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔ بھولی ہوئی باتیں یاد آنے لگیں گی۔ ہلی ہلکی کھانسی اور نزلہ سے نجات مل جائے گی۔ نظر کو تقویت ہو گی۔

بھنگرہ سفید عام ملنے والی بوٹی ہے۔ پانی کے کنارے چھوٹے چھوٹے سفید پھولوں کی شکل میں ہر جگہ مل جاتا ہے۔ اسے سایے میں خشک کریں اور روزانہ ایک ماشہ پتیاں ایک کپ چائے کے حساب سے حسب دستور چائے تیار کریں۔ اگر شہد میسر ہو تو چینی کی جگہ استعمال کریں۔

خونی امراض سے بچنے کے لیے چائے

حکیم عبدالغفور حویلی کابلی مل ایک شریف الطبع اور منکسر المزاج شخص ہیں۔ ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے ایک نہایت خوش رنگ اور خوش ذائقہ چائے پیش کی۔ نسخہ پوچھا تو فرمانے لگے یہ لاہور کے ایک معروف شیخ گھرانے (مٹ والے) کا نسخہ ہے وہ اپنے تمام گھرانوں میں یہی چائے استعمال کرتے ہیں، اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر مریض کے گلے یا اندرونی اعضاء سے خون آ رہا ہو، خونی بواسیر کی شکایت ہو، خواتین کو ایام کی زیادتی کی تکلیف ہو سب کے لیے بے خطا چیز ہے۔ انفلوئنزا کی وبا کے دنوں میں بطور حفظ ما تقدم اس کا استعمال بہتر ہے۔ گلا بیٹھا ہوا ہو تو اس تکلیف کو بھی رفع کرتا ہے۔ صاحب نسخہ نے تو دو ہی اجزا بتائے تھے، انجبار کی جڑ اور پان کی جڑ۔ لیکن میں نے اس میں الائچی خورد کا اضافہ کر لیا ہے۔ ان تینوں چیزوں کو ہم وزن لے کر موٹا موٹا کوٹ لیں اور آدھ سیر پانی میں ایک ماشہ دوا ڈال کر جوش دیں۔ رنگ نکل آنے پر پھینٹ لیں اور دودھ چینی شامل کر کے نوش فرمائیں۔

(بشکریہ علی رضا جالندھری صاحب)

اپنا تبصرہ لکھیں