داماد کو سسرال

داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہیۓ۔

داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہیۓ۔

سسرال کے اندر عزت بنانا داماد کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے، داماد اور سسرال والوں کو لیکر میرا اپنا ایک الگ نظریہ ہے۔میں محض اپنا نظریہ آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں، میری تمام باتوں سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں کیوں کہ ان باتوں کا شریعت سے کوئ تعلق نہیں سواۓ ایک یا دو باتوں کے۔ ایسا نا ہو کہ کوئ سسرال سے جلا ہوا داماد اٹھ کھڑا ہو کہ دلیل دیں فلاں بات کہاں لکھی ہوئ یے۔

میرا ایسا ماننا ہے کہ سسرال میں عزت بنانا خود داماد کے اپنے ہاتھ میں ہوتا یے، ایک داماد جب سسرال میں جاتا یے تو اسکی نقل و حرکت کا سسرال والوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
اگر ایک داماد اپنی بیوی کو لیکر میکے جاتا ہے تو ہر بار اسے سسرال میں کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہیے، چاۓ یا کولڈ ڈرنک پر گذارا کرے، کہنے کا مقصد ہے کہ اگر شوہر سال میں چار مرتبہ بیوی کو لیکر سسرال گیا ہے تو اسے چار میں سے تین بار، یا تین میں سے دو بار چاۓ یا کولڈ ڈرنک پر گذارا کرنا چاہیۓ اور ایک بار کھانا کھانے پر اکتفا کرنا چاہیۓ۔

داماد جب سسرال جاۓ تو ضرورت کے تحت یہاں سے وہاں حرکت کرے، ایسا نا ہو کہ پانچ منٹ اِس کمرے میں تو پانچ منٹ اُس کمرے میں، ایک آنکھ یہاں تو دوسری آنکھ وہاں، جہاں بیٹھے کوشش ہو کہ آخر وقت تک وہیں بیٹھا رہے، بلا ضرورت یہاں وہاں آنے جانے سے اچھا امپریشن نہیں پڑتا۔

سسرال جانے کے بعد صرف ساس، سسر اور بیوی کے بھایئوں کے ساتھ مصروفِ گفتگو رہے، بیوی کی بہنوں سے جتنا ممکن ہو سکے دور رہے۔ بیوی کی بہنوں سے لمبی کچہری، گپے لڑانا، ہنسی مزاق شرعی اعتبار سے اور دنیاوی اعتبار سے بےحد نقصاندہ ثابت ہوگا۔

ایک داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہیۓ، کبھی بہت زیادہ مجبوری پیش آجاۓ تو الگ بات ہے لیکن بلاوجہ، بلا ضرورت ایک داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہیے خواہ بیوی کے بھائ کی شادی ہو، بیوی کی بہن کی شادی ہو یا کوئ بھی بڑی تقریب منعقد ہو داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہیے، اگر مجبوری میں رات رکنی پڑ جاۓ تو کوئ مضائقہ نہیں۔

سسرال میں بلا ضرورت نا لیٹیں، اگر کمرے میں کوئ نہیں تو تھوڑی دیر کمر سیدھی کرنے کے لیۓ لیٹ جانے میں کوئ حرج نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ گھر آکر کمر سیدھی کی جاۓ۔

سسرال جاتے وقت سسرال والوں کے لیۓ مٹھائ، کیک یا فروٹ وغیرہ ضرور لیتے جایئں۔

بیوی میکے میں ہے تو بے وقت بیوی کو فون نا کیا جاۓ، میکے میں بیوی کو بے وقت فون کرنے اور لمبی گفتگو سے انسان سسرال والوں کی نظر میں اپنا معیار گرادیتا ہے، ہاں اگر ضروری کام یا ضروری بات کرنی ہو تو کسی بھی وقت بیوی سے رابطہ کیا جاسکتا یے۔

کوشش کی جاۓ کہ بیوی کو زیادہ دن میکے میں نا چھوڑا جاۓ، بیوی زیادہ دن میکے میں اچھی نہیں لگتی۔
بیوی کو میکے چھوڑتے وقت اسے تمام ضروریات وغیرہ کا مکمل خرچہ دیا جاۓ، کیوں کہ اب وہ آپ کی بیوی ہے، آپ کی ذمہ داری ہے، اس کے تمام اخراجات آپ کے ذمہ ہیں، بھلے ہی وہ اپنے میکے میں موجود ہے لیکن شادی کے بعد بیوی کا اپنے والدین یا بھایئوں سے کسی چیز کے لیۓ سوال کرنا نہایت غیر مناسب ہے۔

ہر بار بیوی کی میکے جانے والی درخواست قبول نا کی جاۓ۔ ایسا نہ ہو کہ جب بیوی کا دل کیا اور شوہر نے میکے بھیج دیا، ہاں اگر بیوی لمبے عرصے بعد جاتی ہے تو پھر میکے بھیجنے میں دیر نا کی جاے۔
یہ چند باتیں تھیں جو اپ کے ساتھ شیئر کی، ان تمام باتوں پر اپنے والد صاحب کو عمل کرتے ہوۓ دیکھا تو میرے دل میں یہ باتیں اترتی چلی گئیں.

اپنا تبصرہ لکھیں