گداگری مافیا

گداگری مافیا اتنا طاقتور کیسے

گداگری مافیا اتنا طاقتور کیوں؟

تحریر: عطیہ ربانی، بیلجیئم

گذشتہ کچھ روز میں ایف آئی اے کے مطابق ملتان سے تقریبا 24 افراد کو گرفتار کیا گیا جو عمرے کے ویزے پر سعودی عرب بھیک مانگنے کی غرض سے جا رہے تھے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کے مطابق میڈیا رپورٹس کے بعد سے ہیومن ٹریفکنگ کے معاملے میں انہیں سنسٹائز کیے جانے کے باعث عمرہ پر جانے والے لوگوں کی پروفائلز کو سختی سے چیک کیا جاتا ہے۔
عمرے کے ویزے پر جانے والے لوگوں نے بتایا کہ ایجنٹ کو خطیر رقم پہلے ہی ادا کی گئی اور اس کے بعد بھیک سے حاصل ہونے والی کمائی میں سے بھی نصف حصہ عمرے کی آڑ میں بھکاری لے جانے والے ایجنٹس کا ہوتا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے اجلاس میں ہونے والے انکشاف میں یہ بات سامنے آئی کہ بیرون ملک بھیک مانگنے والے 90 فی صد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ حرم کے اندر پکڑے جانے جیب کتروں میں سے اکثریت کا تعلق پاکستان سے نکلتا ہے۔
پیشہ ور بھکاری ایجنٹس کو بڑی رقوم کھلا کر عمرے کے ویزے حاصل کرتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بھیک کے اس کاروبار میں ایجنٹوں کا بھی پورا حصہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں حالات یہاں تک دگر گوں ہیں کہ یہاں بےروزگاری کا یہ عالم ہے کہ 50 ہزار انجینیرز بے روزگار ہیں مگر جب جاپان نے 3لاکھ چالیس ہزار ہنرمند افراد مانگے تو انڈیا سے تقریبا ڈیڑھ لاکھ، سری لنکا بنگلہ دیش اور نیپال سے بڑی تعداد میں اور پاکستان سے صرف 200 افراد جاپان گئے۔ شاید حکومتی سطح پر کچھ معاملات اتنے سنجیدہ ہیں ہی نہیں یا بے روزگاری حکمرانوں کا مسئلہ ہی نہیں-
یہاں صحیح قانونی طریقے سے کام میں مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں۔ اور کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے کسی طرح کمیشن کمانے کا موقعہ مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال کتنے ہی پاکستانی زندگی بھر جمع جوڑ کر کے بھی حج یا عمرہ کی سعادت حاصل نہیں کر پاتے۔ کیونکہ ایک عام بھوک اور غربت کا ستایا ہوا پاکستانی عمرہ یا حج کے اخراجات تو کسی طرح عمر کے کسی حصے میں پورے کر لیتا ہے مگر رشوت کی مد میں کی جانے والی ادائیگی کی وجہ سے خانہ کعبہ کے طواف اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی حسرت لیے دنیا سے منہ موڑ جاتا ہے۔
یہ معاملہ صرف یہیں تک نہیں بلکہ بے روزگار مزدور طبقہ ملک چھوڑ کر مختلف عرب ممالک میں بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔
عراق سے شائع ہونے والے آن لائن نیوز پیپر عراقی نیوز نے 2018ء میں دو سو پاکستانی بھکاریوں کی گرفتاری کی خبر دی تھی۔
2017 میں متحدہ عرب امارات کے اخبار دی نیشنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کےبمطابق گوادر سے عمان اور یمن کے راستے داخل ہونے والے پاکستانی رمضان المبارک میں بھیک مانگتے ہیں۔ یہ رپورٹ ‘رمضان المبارک میں پاکستانی بھکاریوں کے جھرمٹ’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
یہ سراسر ملک کی ساکھ کو خراب کرنے باعث بنتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اکثریت تو کام کی تلاش میں باہر جاتے اور محنت مزدوری کرتے ہیں یا اپنے ہنر و تعلیم کے مطابق روزگار حاصل کرتے ہیں۔
مگر کچھ فی صد افراد کی وجہ سے پورے ملک کا نام بدنام ہورہا ہے۔
بعض اوقات ہنر مند افراد غربت کے باعث بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں ہنر مند طبقے کے لیئے کسی طرح کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا رجحان نہیں ہے۔
جبکہ بیرونی دنیا میں آج ہنر کے ساتھ ساتھ اب سرٹیفیکیٹ بھی لازمی ہے۔ یہاں حکومت کی جانب سے مزدور طبقہ کے لیے کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو ان کے کام اور قابلیت کی بنیاد پر ایک مسودہ یا سرٹیفکیٹ جاری کر سکے جس کی بنیاد پر بیرون ملک روزگار میں آسانی پیدا ہو سکے۔

شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
جاں نثاراختر
عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت کی ہے بنی اکرمﷺ نے فرمایا’’ جو شخص لوگوں سے سوال کرے حالانکہ نہ اسے فاقہ پہنچا، نہ اتنے بال بچے ہیں جن کی طاقت نہیں رکھتا تو قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت نہ ہو گا‘‘
آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 اور 11 کے مطابق گداگری ایک جرم ہے مگر کیا کیا جائے جب آئین بنانے والے ہی اس پر عملدرآمد نی کر سکیں اور سرکاری ادارے ہر معاملے میں قوانین کی دھجیاں اڑاتے نظر آئیں- رشوت خوری تو جیسے اب قانونی حیثیت اختیار کرنے لگی ہے بس اسے ضوابط میں لکھتے ہوئے ابھی بھی کچھ شرم تو آتی ہے- ضیاءالحق کے دور سے اتنی کچھ خاص رغبت تو نہیں مگر اس دور میں بھکاری ہومز بنائے گئے جہاں مفت کھانا اور لباس بھی ملتا تھا- یہی کام اپنی حکومتوں کی ساکھ بچانے کی خاطر بھی جاری رکھے جا سکتے تھے- یا کسی اور نام سے ایک بہتر کام عمل میں لایا جا سکتا ہے گو کہ پاکستان میں پچھلی حکومت کا ہر اقدام گناہ اور موجودہ ہر حکومت کا فعل جنت کا ضامن ہوتا ہے- جانے یہ کیسی سوچ ہے مگر بدرجہ اتم موجود ہے-
پیشہ ور بھکاریوں کی روک تھام کے لیئے ٹھوس اقدامات ضروری ہیں- جرمنی میں ایسا قانون عمل میں آیا کہ بے روزگار لوگ ایک یورو فی گھنٹہ کی اجرت پر کام کریں گے- جن میں سڑکوں کی صفائی، پبلک پارک سے کوڑا چننا اور اس طرح کے دیگر کام دئیے جاتے ہیں- ایسے یہ لوگ فوری روزگار کی تلاش کریں اور بہتر روزی کمائیں نہیں تو ملک کی خدمت کریں– مگر ہمارے اعلیٰ حکمران پچھلی حکومتوں کو سزا دینے سے فارغ ہوں تو کچھ ایسے معاملات پر بھی سوچیں جو ان حکمرانوں کی کرپپشن کے علاوہ بھی ملک کے لیئے شرمندگی کا باعث ہیں-

اپنا تبصرہ لکھیں